احتجاج میں تجاوز

شہر کے مرکزی علاقے میں مصروف شاہراہ پرینگ ٹیچرز اور پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم کا سامنا ہونا معمول کے مطابق امر ضرور ہے لیکن آخر کب تک عوام کواس طرح کے حالات سے واسطہ رہے گا۔ مظاہرین آگے جانے کی کو شش کر رہے تھے تاہم پولیس نے انہیں روکنے کی کو شش کی جس پر دونوں طرف سے تصادم ہوا۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہروں پرپابندی عائد کی ہے۔ ینگ ٹیچرز کے منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ پانی کا استعمال بھی کیا گیا۔مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان گفت و شنید اور پرامن طور پر احتجاج ختم کرنے کی نوبت کم ہی آتی ہے زیادہ تر میں پولیس کوطاقت کا استعمال کرنا پڑتاہے اس کے بغیر مظاہرین راستہ روکے کھڑے رہتے ہیںاور منتشر ہونے سے انکار کیا جاتا ہے ۔اساتذہ کے احتجاج کا حق اور ان کے مطالبات اپنی جگہ لیکن عدالت عالیہ پشاور کی جانب سے پابندی لگانے کے باوجود اساتذہ کاقصداً و عمداً اس مقام پر آکر یا اس کی طرف مراجعت کی سعی قانون کے مطابق احتجاج نہ تھا پولیس کواس تجاوز کوروکنے کے لئے اقدام کا حق حاصل تھا ہر بارہر احتجاج کے وقت اس طرح ہونا معمول بن گیا ہے احتجاجی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ لاٹھی چارج ہوئے بغیر ان کا احتجاج موثرنہیں سمجھا جائے گا یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار اس امرکی سعی کرتے ہیں کہ وہ ممنوعہ علاقے میں احتجاج کریں اب تو اسمبلی کا اجلاس بھی نہیں تھا کہ اسمبلی سے عوامی نمائندے آکر ان کے مطالبات سنتے اس کے باوجود عوام کے لئے پریشانی کا باعث بننے والا اقدام بلاجواز تو تھا ہی خود استاد جیسے معزز پیشے کے تقدس کے بھی منافی تھا کہ وہ تجاوز کے مرتکب ہوئے اور پولیس کوطاقت کا ا ستعمال کرنا پڑا۔بہتر ہو گا کہ احتجاجی عوام کے لئے مشکلات کھڑی کئے بغیر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور نہ تو ناخوشگوار صورتحال پیدا کرنے کاباعث بنیں اور نہ ہی خودکو ناخوشگوار صورتحال سے دوچار کریں۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟