ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

محکمہ زراعت جمرودکے تعاون سے جمرود کے علاقہ شاہ کس کے رہائشی نوجوان کا مشروم کی کاشت کا کامیاب تجربہ اور چار سو سے زائد نوجوانوں کو مشروم کی کاشت کی تربیت قابل تقلید اور حوصلہ افزاء امر ہے جس کی تقلید اور حوصلہ افزائی سے مشروم کی کاشت کو وسعت دے کر علاقے کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع میں نہ صرف اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے تجربات سے صوبے کے دیگر علاقوں کے لوگوں کوبھی مستفید ہونے کے مواقع میسر آئیں گے ۔ مشروم کی کاشت کاکامیاب تجربہ کرنے والے نوجوان کے مطابق جمرود کی آب و ہوا مشروم کی کاشت کے لئے بہت موزوں ہے،انہوں نے اپنے گھر میں تہہ خانہ اور دو کمرے مختص کرکے اس میں مناسب ٹمپریچر بنا کر مشروم کی کاشت کی جس سے سالانہ 20 لاکھ روپے کی آمدنی حاصل ہوئی ان کا کہنا ہے کہ مشروم ہائوس میںمختلف اقسام کے مشروم اور اسٹر مشروم کاشت کرتے ہیں جس کی مارکیٹ میں نہایت اچھے دام مل جاتے ہیںمشروم کو پشاور و جمرود کی بڑی مارکیٹوں کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان کو بھی سپلائی کی جاتی ہے۔محکمہ زراعت جمرود کی مقامی نوجوان کی سرپرستی تربیت اور تجربہ کرکے ایک نفع آور فصل کا حصول اس امر پر دال ہے کہ کوشش کی جائے تو اس طرح کے مواقع کا بھی کھوج لگانا مشکل نہیں اور روایتی فصل اگانے یا پھر بنجرززمینوں کواستفادے کے قابل نہ سمجھ کر بیکار قرار دینے کارویہ اب تبدیلی اور توجہ کا متقاضی ہے جمرود کا علاقہ بلکہ ضلع خیبر کا پورا علاقہ بنجر اور سنگلاخ ہے جہاں جنگلی پودے بھی بمشکل نظر آتے ہیں ایسے علاقہ میں محدود پیمانے پرایک تجربے سے بیس لاکھ روپے کی سالانہ آمدن اور چار سونوجوانوں کو اس کی تربیت بطور خاص قابل ذکر اور قابل توصیف امر ہے جس کو سراہنے کے ساتھ ضرورت اس امرکی ہے کہ محکمہ زراعت اور جامعہ زرعیہ کے ماہرین اور اساتذہ پورے صوبے میں غیر روایتی فصل اگانے کے مزید مواقع پر بطور خاص تحقیق پر توجہ دیں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی سے روایتی فصلوں کے معدوم ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں مستزاد آبپاشی کے پانی کی قلت شدید اور بے موسمی بارشوں سے زراعت کو نقصان پہنچ رہا ہے ایسے میں موسم کی تبدیلی اور محولہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے فصلوںکی کاشت اور بیج متعارف کرا کر ہی زراعت کو ترقی دی جا سکتی ہے زرعی ماہرین کے مطابق صوبے میں اس کی بڑی گنجائش ہے ۔ خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن بشمول ضم اضلاع میں جنگلی زیتوں کی پیوندکاری کرکے زیتوں کی پیداوار حاصل کرنے اور ہزارہ ڈویژن کے علاوہ مزید مقامات پر وقتاً فوقتاً چائے کی کاشت کے بھی تجربات کی ضرورت ہے نیز چترال میں زعفران کی کاشت میں جوکامیابیاں سامنے آتی ہیں محکمہ زراعت چترال ان تجربات کو صوبہ بھرمیں متعارف کرانے پر توجہ دے جبکہ چترال میں زعفران کے بلب مناسب داموں فراہمی اور کاشت کی تربیت کا ہنگامی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے چترال کاموسم لواری ٹنل کی تکمیل کے بعد تسلسل سے تغیر پذیر ہے اور دونوں اضلاع کو ماحولیاتی تبدیلی کے جہاں تباہ کن اثرات کا سامنا ہے وہاں اس سے پیداشدہ مواقع کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا آمدورفت کی آسانی اور سڑکوں کی توسیع ومرمت اور متبادل سی پیک روٹ کے باعث علاقے میں کاروبار اور روزگار کے جو وسیع مواقع میسر آسکتے ہیں اس کے پیش نظر زراعت و باغبانی اور ماہی پروری ‘ مگس بانی سمیت دیگر شعبوں سے بھی استفادے پرخصوصی توجہ کی ضرورت ہے محولہ دو اضلاع کو مثل نمونہ ازخروارے جان کر پورے صوبے میں مواقع کے امکانات اور اس سے استفادہ ہی جاری حالات میں بقاء کے لئے ضروری اور مقامی وسائل سے استفادہ ہی مسائل سے نکلنے میں مدد گار امر بن سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی