انتخابی نشان اور انٹرا پارٹی انتخابات

پی ٹی آئی کے انتخابی نشان”بلے” پر پشاور ہائی کورٹ کے دو بار پارٹی کے حق میں فیصلہ آنے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس پر اعتراضات جبکہ مبینہ طور پر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے مسئلے پر اعتراضات اٹھانے کے بعد یہ معاملہ حتمی فیصلے کیلئے سپریم کورٹ میں لیجانے اور وہاں دو روز تک جانبین کی جانب سے دلائل کے انبار لگانے اور ایک ایک نقطے کا نہایت عرق ریزی سے جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کے مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، یوں پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان ”بلے” سے محروم ہونا پڑا ہے، اس ضمن میں نہ صرف پارٹی کے اندرونی انتخابات کے طریقہ کار پر اعتراضات کے حوالے سے خود پارٹی کے بعض اہم ارکان کو بھی عدالت عظمیٰ میں سنا گیا ،پارٹی کے حامی وکلاء سے استفسارات کئے گئے جن کے جوابات اطمینان بخش ثابت نہیں ہوئے بلکہ انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے جو ماحول اور طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقررہ شرائط و ضوابط کے بھی برعکس قرار دئیے گئے، جس کے بعد تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا حکم صادر کر دیا گیا، سپریم کورٹ میں مقدمے کی شنوائی گزشتہ روز رات گئے تک جاری رہی اور پھر رات گئے دیر سے مختصر فیصلہ سنایا گیا جس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کیلئے ان کے امیدواران کو انتخابی نشانات کو حتمی صورت دینے میں بھی تاخیر ہوتی رہی اور الیکشن کمیشن انتخابی نشانات کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مقررہ وقت میں اضافہ کرتی رہی، اس حوالے سے جہاں تک تحریک انصاف کو اپنے انتخابی نشان سے ہاتھ دھونا پڑا وہاں اے این پی کو جرمانہ عائد کرتے ہوئے اس کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ مئی تک انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا جبکہ انتخابی نشان لالٹین دینے کی منظوری بھی دی گئی، دوسری جانب تحریک انصاف نے مبینہ طور پر ”پلان بی ”کے تحت تحریک انصاف نظریاتی کے نام پر قائم جماعت کے انتخابی نشان” بلے باز” یعنی بیٹسمین کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی جبکہ الیکشن کمیشن نے اس حکمت عملی کو ناکام بناتے ہوئے آراوز کو تحریک انصاف کے امیدواروں کو دوسری کسی بھی جماعت کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دیا، ادھر بلے باز کے انتخابی نشان کی حامل جماعت تحریک انصاف نظریاتی کے سربراہ اختر اقبال ڈار نے گزشتہ روز ایسی خبر سامنے آنے کے بعد الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے ہمارے جعلی ٹکٹ جمع کروائے ہیں ،انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا اپنا منشور، اپنا آئین ہے اور ہمارا نعرہ کرپشن کی سزا موت ہے ،کسی پارٹی کا امیدوار دوسری پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتا، پارٹی ٹکٹ سے متعلق ہمارا کسی جماعت سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ،پتہ نہیں پی ٹی آئی امیدواروں نے ہمارے ٹکٹ کہاں سے لئے، الیکشن کمیشن جعلسازوں کو پکڑے ،اب جبکہ اختر اقبال ڈار نے صورتحال کی دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے تو جن لوگوں نے مبینہ طور پر غیر تصدیق شدہ ٹکٹس الیکشن کمیشن میں جمع کرا کر ”بلے باز” کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لینے کی جعل سازی کی کوشش کی ہے ان کیخلاف الیکشن کمیشن کیا اقدام تجویز کرتا ہے ،آیا ان کے خلاف قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے ان کو قانون کی گرفت میں لینے کے احکامات صادر کئے جاتے ہیں اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اس پر فی الحال کچھ بھی کہنا مناسب نہیں، تاہم ایک بات جو اس سارے قضیے کے اندر سے باہرآتی دکھائی دیتی ہے وہ ہے تمام سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی انتخابات جمہوری اقدار کے عین مطابق کرانے کا پابند کرنا ،بدقسمتی سے ملک میں اکثر سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوری انداز میں انٹرا پارٹی انتخابات سے پہلو تہی کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کے نام پر ڈھونگ رچاتی ہیں اور زیادہ تر جماعت خاندانی کلب بن کر موروثیت کے اصول پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہیں، اسی کارن ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہو رہی ہیں، امید ہے اب تمام سیاسی جماعتیں اپنا رویہ بدل کر صحیح جمہوری اصولوں کی پاسداری پر عمل پیرا ہو کر پارٹیوں کے اندر جمہوری روایات کو مستحکم کریں گی۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟