نگران حکومت یا شاہ مدار؟

آئین پاکستان کے مطابق مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کا سب سے بڑا مقصد غیر جانبدرانہ ‘ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے اور ان حکومتوں کی ذمہ داریوں میں نہ تو ترقیاتی منصوبوں کا اجراء ہے نہ ہی دیگر مقاصد شامل ہیں ‘مگر جب سے یہ نگران حکومتیں آئی ہیں اور بوجوہ ان کی مدت میں توسیع ہوتی جارہی ہے ‘ انہوں نے نہ صرف بعض سیکٹرز میں اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے نئے نئے منصوبوں کے اجراء کواپنے”مقاصد” میں شامل کر رکھا ہے بلکہ بیرونی قرضے لے کر عوام پر بوجھ میں اضافہ کو مقصد بنا لیا ہے جبکہ بعض ان بنیادی سیکٹرز میں قیمتوں کے اتار چڑھائو سے جن کا عوام سے براہ راست تعلق بنتا ہے ‘ عوام پر بوجھ میں اضافہ کو بھی معمول بنا لیا ہے ‘ اس ضمن میں بجلی اور پٹرولیم کے شعبوں میں جو”کاریگری” دیکھنے کو مل رہی ہے وہ ایک طرف جبکہ تازہ ترین معاملہ قدرتی گیس کے نرخوں میں 35فیصد کے لگ بھگ اضافہ کرکے مجموعی طور پر 180ارب روپے کی وصولی کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے قدرتی گیس کی مد میں جس صورتحال سے عوام اور خاص طور پر گھریلو صارفین جس بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں اور ان کی دوہرے انداز میں چیخیں نکل رہی ہیں اس نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے کیونکہ ایک جانب گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب گھریلو صارفین کوگیس دستیاب ہی نہیں ہو رہی ‘ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر ہرچند ہفتوں بعد گیس کے نرخ بڑھا کر عوام کا گلا دبا رہی ہے ‘ حکومت کے پاس اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے کئی بہانے اور عذر موجود ہیں اور عوام کی فریاد ہر ہر موقع پر بے اثر جارہی ہے ‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گھریلوصارفین کو صبح ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک تین وقت کی ”پکانے کی عیاشی” بھی معدوم ہوکر رہ گئی ہے چا جائیکہ وضو کرنے ‘ نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے پانی گرم کرنے میں کوئی آسانی فراہم ہو اس کے ساتھ ساتھ سلینڈروں سے بہ امر مجبوری استفادہ کرکے اپنی ضروریات پورا کرنے والوں کے لئے ایل پی جی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ سوہان روح بنتا جارہا ہے اوگرا نے سوئی نادرن گیس کمپنی کے منافع پر دس فیصد سپر ٹیکس کابوجھ بھی صارفین پرڈالنے کی منظوری دیدی ہے جو انصاف کے تقاضوں کے بالکل برعکس ہے اگر ایک کمپنی جوپہلے ہی بے پناہ منافع کماتی ہے ‘ اپنی آمدن پر ٹیکس کی ادائیگی کا سارا بوجھ بھی اپنے غریب صارفین کو منتقل کرے تو اس سے زیادہ ناانصافی اور کیاہوسکتی ہے ‘ دوسرا یہ کہ اصولی طور پر صارفین سے اتنی ہی وصولی کی جانی چاہئے جتنی کہ وہ گیس استعمال کرتے ہیں ۔ مگر سب سے بڑی ایک اور ناانصافی اس ملک میں عام عوام کے ساتھ یہ کی جارہی ہے کہ نہ صرف گیس بلکہ بجلی کے بھی سلاٹ بنا دیئے گئے ہیں اور ایک سلاٹ کے ہندسے کراس کرتے ہوئے متعلقہ شعبوں کے میٹرز ایک ہندسے کا اضافہ شو کرتے ہیںتو ا گلے سلاٹ کے نرخ لاگو کرکے عوام کا گلا دبانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی جاتی ‘ بلکہ متعلقہ میٹر ریڈرز اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ایک سلاٹ سے دوسرے سلاٹ کے ہندسے کراس کر جائیں تو کم سلاٹ کے بعد صرف ایک نمبر کااضافہ میٹر کرے تو اگلے سلاٹ کی قیمت ٹھوک دی جاتی ہے جو کسی بھی اخلاقی اور قانون کے مطابق سخت ناانصافی کے زمرے میں شمار کی جانی چاہئے ‘ بہرحال آمدم برسر مطلب کے مصداق نگران حکومت کو سوئی گیس کے نرخوں میں اتنا اضافہ کرنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی حق حاصل نہیں ہے اور وہ اگر اپنے اصل مینڈیٹ یعنی انتخابات کا عمل مکمل کرنے تک خود کو محدود رکھے توبہتر ہے اور یہ سارا کام صرف ایک روز بعد ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد نئی منتخب حکومت کے لئے چھوڑ دے تو بہتر ہوگا۔کمپنی کی جوبھاری آمدن تعیشات اور مراعات پر خرچ ہوتی ہے اگراس میں کفایت اختیارکی جائے تو عوام پر اس قدر بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہ پڑتی مگر اس کی بجائے مراعات اور تعیشات پر بھاری اخراجات پر قدغن کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور عوام کوکند چھری سے ذبح کیا جاتا ہے جب یہی سب کچھ ہو گا توپھرجس دن عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے توپھر سخت عوامی احتساب سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل