سمجھنے کی ضرورت

خیبر پختونخوا اسمبلی کے بعد نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے لئے طلب کردہ نئی قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی الزام تراشی و ہنگامہ آرائی کے عمل کااعادہ کیا گیا اپوزیشن کے شور شرابہ کے باعث ایوان مچھلی بازار بن گیا۔دوسری جانب خیبر پختونخوا میں افتتاحی اجلاس کی طرح سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے دوران بھی خیبر پختونخوا اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی اسمبلی پاس منسوخ کرنے کے باوجود مہمانوں کی گیلریاں ایم پی ایز کے رشتہ داروں اور کارکنوں سے بھری ہوئی تھیں قومی اسمبلی میں تو سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی جانب سے احتجاج اور شور شرابہ کی تو کسی حد تک سمجھ آتی ہے لیکن خیبر پختونخوا اسمبلی میں جہاں سنی اتحاد کونسل از خود بڑی اوربھاری اکثریت رکھنے والی جماعت ہے اس کے باوجودخود انہی کے حمایتی کارکنوں کی جانب سے دوسرے روز بھی ایوان کو مچھلی بازار بنانے کا عمل گویا خود اپنے ہی خلاف شر و فساد کھڑی کرنے کے مترادف ہے حلف برداری کے روز مخالف جماعت کی ایک خاتون کی جانب سے ”انگلی سے دیوار پر حلوہ” لگانے کے مصداق جو عمل کیاگیا وہ نامناسب ابتداء تھی ملکی ایوانوں میں حزب اختلاف سے اچھائی کی توقع رکھنااور سنجیدہ و پروقار سیاست کا تواب تصور ہی ختم ہوگیا ہے خیبر پختونخوا میں حزب اختلاف کی ایک خاتون رکن کی جانب سے جو طرز عمل اپنا کر ایوان کے ماحول کو روز اول ہی خراب کیاگیا قومی اسمبلی میں یہی عمل خیبر پختونخوا کی اکثریتی اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت کے جملہ ارکان نے ا پنا لیا یہ طرز سیاست خواہ جس کی بھی جانب سے اپنائی جائے قابل مذمت اور قابل اصلاح ہے جس پر پارلیمانی رہنمائوں کو اتفاق کرکے ایوان کی کارروائی کواحسن انداز میں چلنے دینے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کی سعی کرنی چاہئے اس ضمن میں سپیکر ڈپٹی سپیکرز کو بطور خاص سعی کرکے ثالثی کا کردار ادا کرکے حکمران اورحزب اختلاف کی جماعتوں میں ایوان کی کارروائی کے دوران اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور مضحکہ خیز حرکات سے اجتناب کو یقینی بنانے میں کردارادا کرنا چاہئے اگر ابتداء ہی میں یہ ہو جائے تو ماحول پر طاری کشیدگی کے بادل چھٹ سکتے ہیںوگرنہ اگر خدانخواستہ کوئی ایک مزید ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو اسمبلی کی پوری مدت اسی جنگ و جدل میں گزر جائے گی جس سے ایوان و پارلیمان کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام اور سیاستدانوں کی ناکامی و نااہلی اور ہٹ دھرمی پر مہر تصدیق ثبت ہوگی جس ے بچنے کا تقاضا ہے کہ جملہ عناصر ہوش کے ناخن لیں اورسنجید ہ و پروقار پارلیمان ی کردار کا مظاہرہ کریں تاکہ عمل اور ردعمل کا یہ مقابلہ یہیں ختم ہوجائے ورنہ پانچ سال تک بھی یہ جاری رہے توکسی کی جیت اور کسی کی ہار نہیں ہوگی بلکہ طرفین بے نقاب اور ان کے حصے میں خجالت و ندامت کے سوا کچھ نہ آئے گا۔ جہاں تک اسمبلی کی گیلری تک مہمانوں اور کارکنوں کی رسائی کا سوال ہے اس کو بھی ایک حد میں لانے میں پارلیمانی جماعتوں کوکردارادا کرنا چاہئے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پہلے کھڑکی توڑشو کے بعد دوسرے موقع پراس سے بچنا ممکن تھا قومی خزان سے بھاری تنخواہیں مراعات اور الائونسز لینے والے غمخواروں کو خواہ وہ حکومت میں ہوں آئینی عہدیدار ہوں یاپھر رکن پارلیمان اب ان کو سیاست اور سیاسی جماعت اور اپنے اپنے قائدین سے وفاداری کے ایوان میں بے جا اظہار کی بجائے عوامی مسائل ومشکلات کے حل اور قانون سازی کے بنیادی فرض کی طرف متوجہ ہونا چاہئے حکومتی بنچوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ گزشتہ دو سالوں میں قوم کو جن بے مثال مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی وجہ سے عوامی مزاج انتہائی حساس ہے۔معاشی حالات کو بہتر بنانے پر اسے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اپوزیشن بنچوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انہیں حکومت کی تعمیری رہنمائی کرنے کی ضرورت ہوگی۔تمام اسٹیک ہولڈرز کی توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ وہ پاکستانی عوام کا کیا مستقبل چاہتے ہیں۔ قانون سازوں کو چاہیے کہ وہ اسمبلیوں میں اپنی موجودگی کا استعمال اپنے قانون سازی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ماضی اور حال کی غلطیاں مستقبل میں نہ دہرائی جائیں۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی قیادت یہ ثابت کرے کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ پارلیمنٹ سب سے اہم فورم ہے جس کے ذریعے پاکستان کو گھر کہنے والے لاکھوں افراد کے لیے کل کیسا ہونا چاہیے اس پر سیاسی مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ سیاستدان آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ