پاک افغان کشیدگی

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بڑا اضافہ اور افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال اب ناقابل برداشت ہو گیا ہے گزشتہ دس دنوں کے اندر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی کے کوئی چودہ واقعات ہوئے جس میں افغانستان کی سرزمین کے استعمال ہونے کے ایک مرتبہ پھر شواہد سامنے آئے گزشتہ روز درون افغانستان میں کارروائی غیرمتوقع نہ تھی بلکہ یہ تنگ آمد بجنگ آمد کامصداق تھا جس کا باقاعدہ اعلیٰ ترین سطح پر عندیہ بھی دیا گیا تھا۔شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے دو افسران کے نماز جنازہ کے موقعے پر صدر آصف علی زرداری نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے عزم کے اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جہاں بھی ہوں گے اور جس ملک میں بھی ہوں گے، ان کا پیچھا کیا جائے گا۔صدر کے اعلان کے ٹھیک ایک دن بعد پاک کی فضائیہ نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا۔دفتر خارجہ کے مطابق آپریشن کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشت گرد تھے۔ یہ گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے ساتھ مل کر پاکستان میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار ہے۔دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کرتا ہے، تاہم افغانستان میں اقتدار میں موجود کچھ عناصر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنی سرحد سے باہر کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے بلکہ اس سے قبل بھی افغانستان اور ایران کی حدود میں پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان نے کئی مرتبہ افغانستان کی نگراں حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا کہ وہ دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں لیکن یہ سلسلہ بتدریج بڑھتا رہا۔ کئی مرتبہ توجہ دلائی گئی کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور یہ ان معاہدوں کے خلاف ورزی ہے جو انہوں نے پاکستان اور عالمی دنیا سے کیے ہوئے ہیں، اس کے باوجود افغان حکومت نے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔اس کے بعد پاکستان نے مجبورا کارروائی کی اور اس انداز سے کی کہ جس میں صرف اور صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغان حکومت کے اندر لوگ موجود ہیں جو دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں پاکستان کی کارروائی بالکل درست اور جواز رکھتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو اب صرف اس کارروائی تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دوست ممالک جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر شامل ہیں، ان کے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ایسے عناصر جو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کی سرکوبی کرے افغان حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے، بجائے اس کے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھے، اسے پاکستان کے مطالبات پر غور کرنا چاہیے۔پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں اور ایک طویل عرصے سے وہ جس قسم کے حالات کامشترکہ طورپرسامنے کرتے آئے ہیں ایسے میں یہ نوبت نہیں آنی چاہئے تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ اچھے ہمسائے ہونے کی بجائے ایک دوسرے سے الجھنے پر مجبور ہوجائیں یہ درست ہے کہ ممالک کے درمیان تعلقات میں مفادات اہم ہوتے ہیں لیکن مفادات کو اتنی اولیت دینا بھی درست نہیں کہ دونوں ممالک آمنے سامنے کھڑے ہوں۔بہرحال پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے عناصر کے خلاف کارروائی ناگزیر تھی جس سے شدت پسندوں کوواضح پیغام ملا کہ ارض پاکستان کا تحفظ ہر قیمت پریقینی بنانے کی ذمہ داری بہر صورت پوری کرنے میں کسی مصلحت کو سامنے نہیں لایا جائے گا البتہ اگرافغان حکومت دوحہ معاہدے کی پاسداری کرے تواس طرح کی کشیدگی اور صورتحال کی نوبت ہی نہیں آئے گی ممالک کے درمیان اس طرح کی کشیدگی اورصورتحال کوئی نئی بات نہیں ہوتی لیکن رمضان المبارک کے ان مقدس ایام میں ہر دو ممالک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کشیدگی کو ہوا دیں افغان حکومت کاردعمل اپنی جگہ لیکن اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی اس کے باوجود اس معاملے کو مزید کشیدگی کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے دونوں ممالک ایک دوسرے کے موقف کو سمجھیں اور باہم مل بیٹھ کر اس طرح کے امکانات ہی کو ختم کرنے کی راہ نکالی جائے کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال ہی پیدا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ