لداخ ،مودی کیلئے غیرمتوقع چیلنج کیسے بنا؟

بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر کی شناخت کو چھینے ہوئے پانچ سال ہونے کو ہیں مگر بلائوں کے اس صندوق کا ڈھکن ابھی تک کھلا ہوا ہے ۔یہ الگ بات کہ نریندرمودی حکومت کو اس فیصلے کے خلاف جن علاقوں سے ردعمل کا خدشہ تھا ان پر بظاہر سکتہ طاری رہااور اب بھی یہ کیفیت بحال ہے مگر جن علاقوں نے اس قدم کا پرجوش خیرمقدم کرکے جشن منایا تھا اب وہ بے چینی اور بے زاری کا برملا اظہار کررہے ہیں گویا کہ پانچ اگست کے بعد کی صبح ان کے لئے داغ داغ اُجالااور شب گزیدہ سحر ثابت ہوئی۔پانچ اگست کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کی حکومت کو دو طرح کے ردعمل کا خطرہ تھا ان میں ایک کا تعلق پاکستان سے تھا اوردوسرا اسی سے جڑا ہوایہ خطرہ تھا کہ وادیٔ کشمیر جو پہلے ہی مدت دراز سے آشوب زدہ ہے اس فیصلے کے بعد آتش فشاں کی صورت پھٹ سکتی ہے۔اسی خطرے کے تدارک کے لئے مودی حکومت نے بیرونی ممالک سے رابطہ کیا تھا جس کا انکشاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کے موقع پرپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا کہ نریندرمودی نے بھی ان سے کشمیر پر کردار ادا کرنے کا کہا ہے ۔حقیقت میں یہ پاکستان کے ممکنہ ردعمل کو روکنے کی ہی استدعاتھی ۔اسی طرح عرب ملکوں کو بھی ایک خاموش کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا مگر اس کے ساتھ ہی وادیٔ کشمیر میں اس قدر سخت اقدامات کئے گئے تھے کہ جن میں چڑیا کے لئے پر مارنا بھی ممکن نہیں تھا ۔ہر گھر اور گلی پر نظر رکھنے کے لئے فوج تعینات کی گئی تھی اور اسی لاکھ آبادی مکمل محاصرے میں تھی ۔اس آبادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے انٹرنیٹ سمت تمام ذرائع ابلاغ بند کردئیے گئے تھے۔ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن گرفتار کئے گئے تھے ۔وادیٔ کشمیر کے ردعمل کے بعد اگلے چند برس میں اگر کہیں اور سے مزاحمت اُبھرنے کا اندیشہ تھا وہ جموں تھا ۔یہ جموں سے تعلق رکھنے والاڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ ہی تھا جس نے ریاست جموں وکشمیر کو بیرونی عناصر سے محفوظ رکھنے کے لئے سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون بنایا گیا تھا ۔یہی قانون حقیقت میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370کی روح تھا ۔کشمیر کی شناخت چھینے جانے سے چند برس پہلے 2012 میں چار بودھ خاندانوں کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے واقعے کے بعد بھی بودھ اور مسلمان آبادیوں میں کشیدگی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی اور بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی مہم چلائی تھی۔اسی کشیدگی کا اثر تھا یا جذبہ انتقام کہ بودھ تنظیموں نے پانچ اگست کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے لئے الگ ریاستی شناخت کا مطالبہ کیا تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بودھ آبادی پر بھی یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ پانچ اگست کا فیصلہ کسی آبادی کے مفاد کے پیش نظر نہیں ہوا بلکہ اس فیصلے کے پیچھے تہذیبی توسیع پسندانہ اور سٹریٹجک مقاصد ہیں ۔دوچارسڑکیں کچھ پارک اور کچھ چوکوں کی تزئین وآرائش کے بدلے ان آبادیوں سے بہت کچھ چھینا جا چکا ہے۔بھارتی پارلیمنٹ سے منظورہونے والے قانون کے تحت لداخ کو جموں وکشمیر سے الگ یونین ٹیرٹیری بنا دیا گیا ۔جموں وکشمیر مقامی اسمبلی کا حامل جبکہ لداخ کو بغیر اسمبلی کے یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا تھا ۔اس طرح لداخ کے عوام میں انتخابات اور اسمبلی نہ ہونے کی بناء پر نمائندگی سے محرومی کا احساس پیدا ہوتا چلا گیا ۔یہ ۔لداخ میں گورنر کو اختیارات کا مرکز قرار دیا گیا اور اس کے نیچے بھارت سے لائے گئے بیوروکریٹس کے ذریعے اختیارات کا استعمال کیا جانے لگا حالانکہ قانون میں کہا گیا تھا کہ گورنر کا ایک مشیر ہوگا اور یقینی طوریہ مشیر مقامی ہونا تھا جس سے مقامی لوگوں کو اس سسٹم میں شرکت کا احساس ہوتا مگر علاقے کو مقامی نمائندگی سے محروم کرکے مکمل طور پر بھارت کے دوردراز علاقوں کے بیوروکریٹس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ۔مقامی لوگوں کا غصہ پہلی بار گزشتہ برس لداخ ہل کونسل کے انتخابات میں سامنے آیا ۔ان انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اکثریت حاصل کرنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں مگر جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے میدان مار لیا اور چھبیس میں بائیس نشستیں ان دوجماعتوں نے جیت لیں جبکہ بی جے پی بمشکل دوسیٹیں جیت سکی ۔ان انتخابات میں عوام کی شرکت اور ووٹر ٹرن آؤٹ بھی بلند رہا اور اٹھہتر فیصد رائے دہندگان نے ووٹ کا حق استعمال کیا ۔صاف لگ رہا تھا کہ علاقے کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی سے دودوہاتھ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ان انتخابی نتائج نے لداخ کی مسلمان اور بودھ آبادیوں کو مزید قریب ہونے اور مل کر جدوجہد کرنے کا حوصلہ دیا اور اب انہوں نے علاقے کے ماحولیات کے تحفظ اور سیاسی حقوق کی بحالی کیلئے منظم احتجاج کا سلسلہ شرو ع کیا۔لداخ کے نمائندوں نے یہ برملا کہنا شروع کیا ہے کہ 2019کے فیصلے نے لداخ کی ثقافت معیشت اور ماحولیات کو بڑے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔لداخ کے عوام نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ بھارت نے پانچ اگست کا فیصلہ محض تعمیر وترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی خاطر نہیں کیا بلکہ اس کے مقاصد دوررس اورپوشیدہ ہیں۔اسی لئے لداخ کے عوام جہاں اپنی ریاستی شاخت یعنی سٹیٹ ہُڈ کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں وہیں بھارتی آئین کے شیڈول چھ کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال