آخر کب تک؟

پاکستان کے ریاستی انتظام میں چلنے والے کاروباری اداروں کا مجموعی خسارہ اثاثوں کی مالیت سے بھی زیادہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عوامی وسائل میں نقصان اور اداروں کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری کمپنیاں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے عوامی فنڈز سے مجموعی طور پر458ارب سے کہیں زیادہ رقم نگل لیتی ہیں اور یہ سلسلہ رکنے والا بھی نہیں ہر سرکاری اہتمام میں چلنے والی کمپنی اور کارپوریشن خسارے اور تباہی کا کیوں ہوتی ہے اس کی وجہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں بدعنوانی اور بدانتظامی ہے اس کے باوجود نہ تو ان اداروں کی اصلاح کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی نجکاری کی جاتی ہے اب کہیں جا کر پی آئی اے کی نجکاری کی راہ ہموار ہو رہی ہے جو دیر آید درست آید کے مصداق ہے ۔ مالی اخراجات کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی کمپنیاں جنوبی ایشیائی خطے میں کم ترین منافع کمانے والے اداروں میں شامل ہیں ۔ریاستی وحکومتی انتظام کے تحت چلنے والے کارپوریشنوں اور دیگر اداروں کی کارکردگی میں انحطاط درانحطاط کے اس سنگین سے سنگین تر ہوتے مسئلے کا بہتر حل ان کی نجکاری ہے جس کی طرف بوجوہ اس لئے توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ ان اداروں کے ذمہ واجبات اورملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے کے لئے بھی بھاری رقم درکار ہوگی جس کا بندوبست ان حالات میں ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کے ملازمین اور پنشنرز کو تقریباً ہرماہ عدم ادائیگیوں کی شکایت رہتی ہے جس سے قطع نظر یہ ادارے اب ملکی خزانے اور عوام پربوجھ بن چکے ہیں اب اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ان اداروں میں بے تحاشا بھرتیاں اور نااہل افراد کی تقرریاں بدعنوانی اور بددیانتی ہی ان اداروں کولے ڈوبی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو گی کہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اور سرکاری امور کا تجربہ حاصل کرکے ان اداروں میں آنے والے بھی ان اداروں کو خسارے سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ الٹا ان پربوجھ بن گئے سرکاری کارپوریشنوں اور حکومت کے زیر انتظام نیم خود مختار اداروں میں بھاری تنخواہیں اور مراعات بھی بوجھ میں اضافے کا باعث ہیں پاکستان ریلوے ‘ پی آئی اے اور ٹرانس پشاور جیسے ادارے اس کی مثال ہیں جس طرح کے حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں حکومت آخر کب تک ان اداروں کوپالتی رہے گی اور قومی خزانے کا مزید کتنا ضیاع ہوگاحکومت کو اس حوالے سے جلد سے جلد اقدامات اٹھانے اور ان پر پوری طرح عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو