کسانوں کو ریلیف

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں گندم کے کسانوں کیساتھ روا رکھے جانیوالے نامناسب سلوک کا نوٹس لیتے ہوئے گندم کی فوری خریداری کے احکامات جاری کر دئیے ہیں، اس سے پہلے یہ خبریں آ رہی تھیں کہ حکومت نے گندم کے کاشت کاروں سے حالیہ سیزن میں گندم کی کٹائی کے بعد خریداری کا کوئی فیصلہ نہ کرتے ہوئے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ،کاشکاروں نے الزام لگایا تھا کہ متعلقہ محکمہ صرف بااثر افراد کو باردانہ فراہم کر کے ان سے گندم خرید رہا ہے جبکہ دیگر کسانوں سے گندم کے حصول کیلئے کوئی رابطہ نہ کرنے کی وجہ سے مقامی طور پر آڑھتی اور دیگر خریدار انتہائی سستے داموں گندم حاصل کر رہے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے اور انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، متعلقہ ادارے کے حکام کے مطابق ملک میں درآمد شدہ گندم وافر مقدار میں پہلے ہی سے موجود ہے اور گوداموں میں مزید گنجائش نہ ہونے اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کیلئے مزید گندم کی خریداری ممکن نہیں ،متعلقہ ادارے کے حکام کی اس بات میں جتنی بھی حقیقت ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گندم کی فصل آنے کے دن قریب آرہے تھے اور گندم وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے امکانات موجود تھے تو باہر سے بلا ضرورت گندم درآمد کرنے کا کیا جواز تھا؟، دراصل ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ ہمیشہ ہی حکومت سے گندم اور چینی کی درآمد و برآمد کے حوالے سے غلط فیصلے کروا کے مخصوص درآمد و برآمد کنندگان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کر کے مصنوعی قلت یا اضافی پیداوار کی صورتحال سے ناجائز فوائد حاصل کرتاہے، تاہم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے مفاد پرستوں کے ہاتھ روکیں تاکہ ملک کو نقصان سے دوچار کرنے میں مخصوص طبقات کو کامیابی نہ مل سکے۔

مزید پڑھیں:  خشت اول کی کجی اصل مسئلہ ہے