کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے

جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ نازک دور پاکستان سے ہی گزر رہا ہے، کیا ہمارے آباء واجداد نے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دے کر یہ ملک اس لئے حاصل کیا تھا کہ آج ہمارے بچے ہم سے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ایسے سوال اٹھائیں گے کہ جو اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھائے گئے، پڑھتے پڑھاتے اور لکھتے لکھاتے آج ستائیس سال ہو گئے ہیں لیکن اس سے پہلے کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پاکستان کا کیا بنے گا، اور کیا ایسے یہ باقی بھی رہے گا، وطن عزیز کے سیاسی اور معا شی حالات تو ہمیشہ سے کم و بیش ایسے ہی رہے ہیں لیکن اب اس ملک کو وجودی بحران کا سامنا ہے کیونکہ اس کی آبادی کا ساٹھ فیصد یعنی اس کے نوجوان شدید تذبذب کا شکار ہیں، اس سے پہلے ان نوجوانوں سے وطن اور اس کی محبت پر بات کرنے میں کبھی کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن اب یہی نوجوان ایک قوم اور ایک ریاست کی حیثیت سے اپنے مستقبل پر سنجیدہ قسم کے سوال اٹھا رہے ہیں، عمران خان کی حکومت کو یہ کہہ کر ہٹایا گیا کہ اس سے نہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ سیاست، اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کو برسراقتدار لایا گیا، مگر پی ڈی ایم کی حکومت عمران خان کے مقابلے میں ہر میدان میں ناکام رہی، یہ حکومت نہ عمران خان کی مقبولیت سے نمٹ پائی اور نہ ہی اس سے ضمنی انتخابات جیت سکی، پھر عمران خان کو جیل میں ڈالا گیا اور وہ حکومت لائی گئی کہ جس نے عوام کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں اور دن میں ان کو ایسے تارے دکھائے ہیں کہ جس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی، ایسی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کہ عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور مجبور عوام خود کشیوں پرمجبور ہو گئی ہے، اور اقتدارکا نشہ ایسا ہے کہ کوئی بھی کرسی سے اترنانہیں چاہتا، ارتضیٰ نشاط نے کیا خوب کہا کہ
کرسی ہے یہ تمھارا جنازہ تو نہیں
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
ایسے میں اگر آپ ان نوجوانوں کے سوالات کے جواب نہیں دیں گے تو وہ اس ملک میں صرف مجبوری کے تحت رہیں گے، کیونکہ پچھلے پانچ سال میں بتیس لاکھ پچھتر ہزار پڑھے لکھے اور ہنر مند پاکستانی اس ملک کو چھوڑ کر جا چکے ہیں، سینیٹ اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں وزارت اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے یہ رپورٹ پیش کی گئی ہے، میں ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں کئی قسم کے پیچیدہ اور گھمبیر مسائل کا سامنا ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے، کوئی سمت نہیں ہے، کوئی راستہ نہیں ہے، قوموں پر اس سے بھی برے حالات آتے ہیں لیکن اُن کے اہل علم و نظر ایسے بحرانوں سے نکلنے کے راستوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں، ہمیں بھی ایسی ہی راہنمائی ملتی اگر ہمارے پاس بھی کوئی اہل علم و نظر ہوتے، بقول حکیم الامت
اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ
چند روز قبل گورنر ہاؤس پشاور میں ایسے ہی اہل فکرو دانش کی ایک مجلس میں شرکت کا موقع ملاجس کے احوال بتا کر میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں، عنوان تھا پاکستان کے نہ ختم ہونے والے مسائل پر مکالمہ اور مکالمہ کرنے کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل فضلاء کو مدعو کیا گیا تھا، حسب سابق و حسب توفیق تقریب آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئی، بتایا گیا کہ یہاں صرف مسئلوں پر بات نہیں ہو گی بلکہ حل بھی بتائے جائیں گے، یقین جانیں کوئی ایک حل بھی نہ بتایا گیا، پہلے مقرر نے پاکستان کی معیشت پر بات کی اور وہی کچھ بتایا جو کسی عام انسان کے بھی علم میں ہے، دوسرے مقررنے یہ بتایا کہ مغرب میں تعلیم اور صحت کے معاملات کیسے ہیں، یہاں سے ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ہم کس قدر سنجیدہ ہیں، بولنے والوں کی طرح سننے والوں کی دلچسپی بھی ایسی ہی تھی، سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اس سب میں پشاور کے نوجوانوں کے لئے کیا مواقع ہیں ،دوسرا سوال کچھ بہتر تھا کہ ہم ہمسایہ ممالک کی بہتر کارکردگی کی بات تو کرررہے ہیں لیکن جو کام ان کے لوگ ایک گھنٹے میں کرتے ہیں ہم وہی کام پانچ گھنٹے میں کرتے ہیں، ایک مقرر نے کہا کہ ہمیں نیا نظام لانا ہو گا، ایک سوال یہ بھی تھا کہ جب ملک میں جمہوریت ہی نہیں تو مسائل کیسے حل ہوں گے، عوام نے ووٹ کسی کو دیا حکومت کسی کی ہے، ایک سرکاری افسر نے خیبر پختون خواہ میں سیاحت اور آثار قدیمہ کے بارے میں معلومات دیں، اپنے مقررہ وقت پر تشریف لائے نہیں اور پھر تقریر ختم ہی نہیں کر رہے تھے، الغرض سب کچھ بے ربط تھا اور کسی سمت نہیں جا رہا تھا، کم از کم مجھے تو کچھ نیا یا بامقصد نظر نہیں آرہا تھا اور اسی لئے میں اپنی جہالت کا اقرار کرتا ہوں کہ اتنے سارے لوگ ایک ساتھ کیسے غلط ہو سکتے ہیں، ایک مقرر نے جب پاکستانی جامعات کی بات شروع کی تو اس میں میری دلچسپی پیدا ہوئی، کہنے لگے کہ پاکستانی جامعات میں تحقیق نہیں کروائی جاتی، صرف نقل ہوتی ہے، اب یہ بات بھی سب کو معلوم ہے، پرویز ہود بھائی کب سے یہی فریاد کررہا ہے اور ہم اس کو صرف گالیاں دیتے ہیں اور اس پر ذاتی حملے کرتے ہیں، چائے کے وقفے میں میں نے ان صاحب سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ پاکستانی جامعات کا یہ حال کیوں ہے اور ایسا کیا کیا جائے کہ کچھ تھوڑی سی بہتری آئے تو موصوف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، پاس ہی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کھڑے تھے، اُس مقرر سے مخاطب ہوئے کہ ہم آپ کو اپنی یونیورسٹی میں کیسے مدعو کر سکتے ہیں، اب یہ بالکل واضح اقرار ہے کہ ان صاحب کی یونیورسٹی میں بھی علم و تحقیق نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے اور اسی لئے ان کو اُس مقرر کی ضرورت ہے ، اور آپ کو مزے کی ایک بات بتاؤں کہ کچھ عرصہ قبل پی ایچ ڈی کے مقالے کے نتائج اور سفارشات لے کر میں اسی وی سی کے پاس گیا تھا کہ آپ کی ناک کے نیچے تحقیق کے نام پر یہ سب ہو رہا ہے اور آج اس مقالے کا زبانی امتحان ہے، آپ تشریف لائیں، تو فرمانے لگے یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں ایسے زبانی امتحانوں میں جاؤں اس کے لئے اورلوگ ہیں، اب میں اور لوگوں کی کیا سناؤں آپ کو ، شوق بہرائچی نے کیا خوب کہا تھا کہ
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  سرکاری سکولوں کی نجکاری