خواب ضرور دیکھیں

زندگی یہی رہی ایسی ہی جیسی اب ہے بوجھل بوجھل اس سے سوا کیا ہو زندگی اگر آپ وقت کے ساتھ چلنے کی بجائے تربیت کا حق ادا کرنے کو واجب سمجھتے ہوں ایک احساس جرم ہے چین نہیں لینے دیتا ایک آدھ دن میں اس پہ تفصیل سے عرض کرتا ہوں فی الوقت تو یہ کہ اب تک کے سفر حیات میں خوابوں کے ٹوٹنے سے آنکھوں میں کرچیاں چبھنے اور درد کیساتھ خون رسنے کے بہت سارے موسم آئے اور بیت گئے۔ خواب تعبیروں سے خالی تھے یا تعبیروں سے قبل چوری ہوگئے اب ان پر بحث کیا اٹھائیں۔
سچ یہ ہے کہ طمع کے گھاٹ پر اتر جانے والوں کا راستہ دیکھنا آرزدہ کردیتا ہے۔
پچھلے کئی گھنٹوں سے فقیر راحموں سے بحث جاری ہے لیکن چھوڑیں اس بحث کی کتھا لکھنے کا فائدہ۔
کچھ دوستوں نے پچھلے چند دنوں کے دوران کہا ”امریکی سامراج کے ایک حالیہ اقدام پر لکھنے سے کیا امر مانع ہے؟”۔
عرض کیا
” امریکہ سب کااپنا اپنا”
ہم نے اپنے سماج میں چھوٹے چھوٹے امریکہ پالے ہوئے ہیں ان کے سامراجی مزاج اور کرداروں پر بات کرنی پڑ جائے توزبان تالو سے چپک جاتی ہے۔
لیکن امریکہ بہادر کو کوسنے میں دیر نہیں کرتے۔ چند برس ادھر ایک موضوع پر لوگ سوال اٹھا رہے تھے’ چلیں میں آپ کو صاف بتا دیتا ہوں۔
یہ عمران خان کے انصافی دور کی بات ہے ، جب ایک محفل میں جاری گفتگو میں کچھ تلخی در آئی تو چند جیالے یک زبان ہوکر بولے
”تم لوگوں کا لگا کیا ہے جمہوریت پر۔ باپ پھانسی چڑھا’ بہن اور دو بھائی قتل ہوئے۔ کیا قربانی دی تم لوگوں نے جو سوال اٹھاتے ہو اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہو جائو”۔
مجھے وہ سارے زمین زادے یاد آئے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے عہد ستم سے لیکر 27 دسمبر2007 کی شام لیاقت باغ کے باہر اپنی جانیں قربان کیں۔
وہ بھی جو پھانسی چڑھے اور وہ بھی جنہوں نے فوجی عدالتوں سے سنائی گئی کوڑوں کی سزا استقامت کیساتھ بھگتی۔
خیر چھوڑیں سیاسی جماعتیں جب عقیدہ بن جائیں تو سوال حرام ہوتے ہیں۔ انکار کفر اور اختلاف شرک۔
لیکن کیا جو ستم بھرے ادوار ہم بسر کرنے پر مجبورِ محض ہوئے ہماری آئندہ نسلوں کا مقدر بھی ایسے ہی ادوار اور حالات رہیں گے؟
سوال کیا ہے کمبل ہے جان چھڑانی مشکل ہوگئی ہے۔
پاکستانی سیاست کے نابغہ روزگار ذوالفقار علی بھٹو نے خاموشی توڑی تھی ورنہ تو حالت یہ تھی کہ مالکوں کے نوکر، نوکروں کے چاکر اور چاکروں کی کش کش۔
بھٹو اس ملک کے پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے کہا”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں”
ان کی سیاست نے کش کش کو مالک بنا دیا۔
کم ازکم مجھے آج بھی یہ اقرار کرنے میں رتی برابر شرمندگی نہیں کہ ہماری نسل کو سوال کرنا بھٹو نے سکھایا۔
ان سے قبل تو ہاتھی کے پاوں میں سب کاپائوں والا معاملہ تھا۔
آج بھٹو صاحب کی جماعت کے لوگوں کا رویہ عقیدہ پرستوں جیسا ہے تو افسوس ہی ہوگا۔
کیا بدقسمتی ہے کہ ایک سازش کے تحت سیاسی کارکنوں کی جگہ اندھے جذباتی اطاعت گزاروں اور ٹھیکیداروں نے لے لی ہے۔
دو بار بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے’ دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ پانچویں بار پیپلز پارٹی 2008 میں اقتدار میں آئی۔ اب بھی حکومتی اتحاد کی بدولت صدر مملکت کا منصب پیپلز پارٹی کے پاس ہے سندھ میں دوہزار اٹھ سال سے مسلسل اقتدار میں ہے پیپلز پارٹی
کیا یہ سب انفرادی قربانی کا نتیجہ تھا یا قربانیاں دینے”پھانسی چڑھنے ” جیلیں کاٹنے اور کوڑے کھانوں والوں کیساتھ ساتھ ووٹ دینے والوں کا بھی اس میں کوئی کردار تھا؟۔
ہم آگے بڑھتے ہیںمسلم سماج کی سیاسی جماعتوں کو ابھی سیاسی جماعتیں بننے میں وقت لگے گا۔
سیاسی جماعتوں کو پہلے اپنے اندر جمہوریت کا دروازہ کھولنا ہوگا۔ سوال کرنے کا حق دینا ہوگا۔ معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کو جماعتی جمہوری عمل میں شریک کرنا ہوگا۔ تب کہیں جا کر عوام کے حق حکمرانی کی جدوجہد شروع ہوگی ورنہ یہی طبقاتی نظام اور اس کے مجاور خاندان مسلط رہیں گے۔
سیاسی کارکنوں کی قربانیاں کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ہوں گی۔
اچھا کیا جو مروجہ سیاسی عمل وہ جیسا بھی ہے اس میں سیاسی کارکن تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے؟۔
کم ازکم میرا جواب نفی میں ہے اس لئے کہ خاندانوں کی اطاعت کے ادارے سیاسی جماعت نہیں ہوتے، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پھلتی پھولتی ہے۔
وہ حزب اختلاف کے برسوں میں تھنک ٹینکس بناتی ہیں، پالیسی ساز ادارے جو مستقبل میں اقتدار ملنے کی صورت میں روزاول سے ترجیحات کے حصول کیلئے اقدامات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
پھر سال سوا سال بعد کسی کو یہ کہنے کا بہانہ نہیں ملتا تبدیلی کاشت تو نہیں ہوتی کہ سال چھ ماہ میں فصل تیار ہوجائے۔
خطے اور بین الاقوامی حالات کو رہنے دیجئے جن حالات’ مسائل اور مشکلات کا ہمارے نظام سیاسی عمل اور سماج کو سامنا ہے ان سے ایک ترقی پسند سوچ کی حامل قومی جمہوری جماعت ہی عہدہ برآ ہوسکتی ہے جو مغرب و مشرق سے اعتدال پر مبنی خارجہ تعلقات کی پالیسی اپنائے۔
دستور پر(جیسا بھی ہے)اس کی روح کے مطابق عمل کو یقینی بنائے۔ ذات پات برادریوں کے بت توڑے، اشرافیہ اور کچلے ہوئے طبقات کے درمیان نفرت سے بھرے فاصلوں کو کم کرے۔ غربت’ بیروز گاری’ استحصال اور بے انصافی کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے لیکن یہ سب وہی پارٹی کر سکے گی جو جماعت کے داخلی نظام اور درجہ بندیوں میں معاشرے کے تمام طبقات کو آگے بڑھنے کا مساوی حق دے۔
کیا دستیاب سیاسی جماعتوں کے پاس یہ سب کر گزرنے کاحوصلہ ہے؟
میری دانست میں ہمیں اس سوال سے نگاہیں چرانے کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرنا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کے ہمدرد اور ووٹ دینے والے ہاری نہیں ہیں کہ جب چاہا دھتکار دیا۔
تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اب یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستانی فیڈریشن یک وحدتی وجود نہیں بلکہ یہ پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے۔
اسلئے بہت ضروری ہوگیا ہے کہ اس امر کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے کہ قوموں کی قدیم تہذیبی’ ثقافتی اور تاریخی شناخت کو دستور کی سطح پر احترام کیساتھ مقدم قرار دیا جائے۔
اس سے اگلا نکتہ یہ ہوگا کہ پھر دستور کے اندر رہتے ہوئے فیڈریشن کی پانچوں قوموں کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا جائے اور یہ مساوات منتخب و غیر منتخب اداروں میں دکھائی بھی دے۔
اول و آخر ضرورت ترقی پسند شعور کی ہے اس ترقی پسند شعور کے خمیر سے اٹھی سیاسی جماعت ہی حقیقی تبدیلی لاسکے گی ورنہ تو جو ہے یہی ہوگا اور ہوتا رہے گا۔

مزید پڑھیں:  کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے