5 119

بندہ مزدور کے حالات

دنیا بھی عجب تماشا گاہ ہے، طرح طرح کے تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں، حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ کہتے ہیں کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں! لوگوں کو واپڈا سے یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے بلوں میں زیادہ یونٹ ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہیں اس بجلی کے پیسے بھی ادا کرنے پڑتے ہیں جو انہوں نے استعمال ہی نہیں کی ہوتی۔ پھر یوں ہوا کہ کورونا وائرس آگیا ہر طرف اسی کے نام کے ڈنکے بجنے لگے، لوگوں کو جان کے لالے پڑ گئے، بہت سے مسائل پس پردہ چلے گئے، حکومت نے وبا کے دنوں میں عام آدمی کو سہولت دینے کی خاطر بجلی اور گیس کے بلوں میں رعایت کا ڈول ڈالا، پہلے جو ہیوی ویٹ قسم کے بھاری بھر کم بل آیا کرتے تھے ان کی جگہ ہلکے پھلکے بل آنے لگے، کورونا کے ہاتھوں گھروں میں قید لوگوں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا چلو کسی طرف سے ریلیف تو ملا، ساتھ ہی لوگوں سے یہ بھی کہا گیا کہ بعد میں بقایاجات کی صورت آپ سے ساری وصولی کرلی جائے گی۔ بات تو مناسب تھی وبا کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے، ہاتھ سے کام کرنے والے ہنرمندوں کی دیہاڑی ختم ہوکر رہ گئی، نجی سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرا م کی تنخواہیں بند ہوگئیں، عام دکاندار دکانیں بند کرکے گھروں میں بیٹھ گئے، دکان کا کرایہ تو دینا پڑتا ہے ظالم پیٹ بھی ساتھ لگا ہوا ہے، آپ سب کیساتھ ادھار کرسکتے ہیں لیکن پیٹ ادھار نہیں مانتا غرض یہ کہ بہت سارے مسائل تھے اور اب بھی ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اچانک واپڈا اور محکمہ گیس نے تین ماہ کے اکٹھے بل بھجوا دئیے، صارفین کو جس رعایت دینے کی بات کی گئی تھی اسے بیک جنبش قلم نظرانداز کر دیا گیا، لوگ پریشان ہوگئے وجہ یہ ہے کہ ابھی تک جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، کاریگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیکار بیٹھے ہیں اور اوپر سے تین مہینوں کے یک مشت بلوں کی ادائیگی۔ اب لوگ پریشان ہو کر کہتے ہیں کہ اگر بل معاف نہیں کئے گئے تھے ہم نے ادائیگی کرنی تھی تو قسط وار کی جاتی اب ہم تین مہینوں کے اکٹھے بل کیسے ادا کریں؟ اب صورتحال یہ ہے کہ بلوں میں رقوم کی ایڈجسٹمنٹ کرنے والے دفاتر میں لوگوں کا رش بڑھ گیا ہے جبکہ واپڈا اور گیس دونوں اداروں کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح پالیسی نہیں دی گئی ہے اس لئے سب کچھ ابہام کا شکار ہے۔ کچھ بھی واضح نہیں ہے کورونا ایمرجنسی کی وجہ سے بجلی اور گیس کے بلوں میں صرف رعایت کی گئی تھی لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ یہ بل معاف کر دئیے گئے ہیں۔ کچھ شہری اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں بل معاف کرنے کی نوید دی گئی تھی اور یہ تین مہینے کے اکٹھے بل ہم کیسے ادا کریں؟ بجلی کے محکمے پیسکو کا موقف یہ ہے کہ بل معاف نہیں کئے گئے تھے بلکہ گزشتہ سال انہی مہینوں میں لی گئی ریڈنگ کے مطابق کورونا ایمرجنسی کے دوران کے مہینوں کے بل بھجوائے گئے ہیں۔ دراصل اس وقت ہم سب حالت جنگ میں ہیں، کورونا وائرس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، لوگوں کے حالات بدل گئے طور طریقے بدل گئے، ملنے ملانے کے سلسلے موقوف ہوگئے، غرضیکہ سب کچھ بدل گیا۔ کہتے ہیں جنگ میں سب سے پہلے سچائی شہید ہوتی ہے یعنی جھوٹ سچ میں امتیاز نہیں کیا جاسکتا، ایمرجنسی میں نت نئے اقدام اُٹھانے پڑتے ہیں جن میں بہت سے درست ہوتے ہیں اور کچھ غلط بھی اور جب صورتحال یہ ہو کہ پہلے سے موجود مسائل کی بھرمار ہو تو پھر ایمرجنسی میں صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ اس وقت موذی امراض میں مبتلا مریض زندگی وموت کی کشمکش سے دوچار ہیں وفاق سے فنڈز نہ ملنے کے باعث ہمارے صوبے میں ہزاروں مریض علاج کی استطاعت نہ ہونے پر بستروں پر پڑے ہیں، دوسری طرف صوبائی حکومت کے پاس بھی کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے اب مریضوں کو بیت المال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ آپ ذرا سوچئے! اس قسم کی صورتحال میں ان مریضوں پر کیا گزر رہی ہوگی جو علاج کی استطاعت بھی نہیں رکھتے اور وفاق کی طرف سے فنڈز کی بندش کے بعد بالکل بے یار ومددگار ہو کر رہ گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو درخواست کی صورت میں محکمہ صحت عام مریضوں کو مفت علاج کیلئے رقم فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن یہ طریقہ کار بھی انتہائی پیچیدہ ہے، رقم منظور ہوتے ہوتے مریض اگلے جہاں رخصت ہوچکا ہوتا ہے۔ اب بہت سے مستحق مریض سرکاری سطح پر مفت علاج سے محروم ہوگئے ہیں، اب ان مریضوں کو بیت المال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے لیکن وہاں پر بھی اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ بندوبست موجود نہیں ہے، اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح گردے کے مریض نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں، جہاں کم ازکم ایک ڈائیلاسس پر پانچ سے دس ہزار کے درمیان خرچہ آتا ہے۔ صوبائی حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ غریب عوام کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا، اس وقت انہیں ہم سب کی مدد کی ضرورت ہے، مخیرحضرات بھی اللہ کریم کی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے غریب بہن بھائیوں کی مدد کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش