p613 48

شہری ہوابازی اور قومی فضائی کمپنی کے احیا کے تقاضے q

ہوابازی کے متعلقہ وفاقی وزیر کی بجائے وزیربحری امور اور وزیراطلاعات سمیت معاون خصوصی کی پائلٹس کے لائسنز کی منسوخی اور اس ضمن میں پریس کانفرنس اگرچہ حکومتی معاملات وکارروائی کی تشریح وتفصیلات سے آگاہی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے تو کافی ہے لیکن متعلقہ وزیر اگر اپنے بیانات کے باعث قومی فضائی کمپنی اور ملکی شہری ہوابازی کے ادارے اور پائلٹس کے حوالے سے میڈیا سے خود بات کر لیتے تو مناسب ہوتا۔ ملکی فضائی کمپنی انحطاط کے اس درجے کو کبھی نہیں پہنچی تھی جتنا اب شکار ہے۔ پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے قومی ایئر لائن کے پائلٹس کے جعلی لائسنس پر کام کرنے کے انکشاف کے بعد دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں کے تحفظ اور سروسز کے معیار کو جانچنے والے ادارے ایئرلائن ریٹنگ نے پی آئی اے کی ریٹنگ کم کر کے اسے ون سٹار کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ دنیا کی بہترین ایئر لائنز جیسے ایمریٹس اور اتحاد وغیرہ کی ریٹنگ سیون سٹار ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی کی وجہ سے پی آئی اے کا ایک سٹار کم ہوا جبکہ ایئرلائن ریٹنگ نے اس کے تین سٹار آئیاٹا کے حفاظتی آڈٹ پر اور ایک سٹار اس کی بین الاقوامی سول ایوی ایشن تنظیم (آئی سی اے او) کنٹری آڈٹ کی وجہ سے کم کیا۔جہاں تک پائلٹس کے لائسنز کی معطلی اور تحقیقات کا سوال ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ رازدارانہ انداز میں کیا جاتا اور یکے بعد دیگرے تحقیقات کے نتائج سامنے لا کر کارروائی کی جاتی تو ملکی اداروں کے حوالے سے اچانک منفی تاثرات اور ہلچل کی بجائے اس امر کی سنجیدگی کی تحسین ہوتی۔ یوں منفی امور اور پراپیگنڈے کی نوبت نہ آتی بہرحال اس معاملے کو جس غلط انداز میں شروع کیا گیا اس سے ہونے والے نقصانات کا اب ازالہ ممکن نہیں، البتہ اب بلاامتیاز کارروائی اور مشکوک قسم کے کسی ہوا باز کے ملکی وغیر ملکی اداروں میں موجود نہ ہونے کی یقین دہانی ایک ایسا واحد راستہ ہے جسے اختیار کر کے پاکستانی پائلٹوں اور انجینئروں کی شہرت یافتہ تجربے ومہارت سے لگے زنگ کو ہٹانا اور داغ دھونا ممکن ہوگا۔ پی آئی اے کی پروازوں کی معطلی کے بعد بڑی بڑی ایئر لائینز اس خلاء کو دور کرنے کی جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کا دوبارہ حصول جان جو کھوں کا کام ہوگا۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا عالمی معیار زیادہ پرانی بات نہیں، ایئر مارشل ریٹائرڈ نورخان نے پی آئی اے کو معیار کے جن بلندیوں پر پہنچایا تھا اور ان کے پیشروں نے جس طرح اسے برقرار رکھا آج اسی جذبے، معیار اور اس درجے کے دیانتدار تجربہ کار اور قومی جذبے کے اظہار کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے میں اقرباء پروری اور سیاسی بنیادوں پر جو بھرتیاں ہوتی رہیں اس میں صرف سیاستدانوں اور حکمران ہی کو معتوب گرداننا کافی نہیں بلکہ اس بہتی گنگا میں ہر کسی نے ہاتھ دھویا جس کا نتیجہ آج خسارے کا شکار اور تباہ حال ادارے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ قومی فضائی کمپنی کے احیاء کا تقاضا ہے کہ پائلٹس سے لیکر اوسط درجے تک کے ملازمین سبھی کی استعداد وتجربہ مہارت اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور معیار پر پورا نہ اُترنے والے اور کام میں دلچسپی نہ رکھنے والے تمام ملازمین کو فارغ کیا جائے، اسی طرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کی بھی تطہیر ضروری ہے ایسا کر کے ہی ملک کی شہری ہوابازی اور قومی فضائی کمپنی کے بارے میں عالمی تحفظات کا خاتمہ ہوگا اور سروس کا معیار اور مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنا کر اعتماد کی بحالی ممکن ہوگی۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت