5 19

کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے

فروری کے مہینے کی بارش ہماری فصلوں کیلئے نیک شگون ثابت ہوتی ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ آسمان سے گھی اُتر رہا ہے ہماری فصلوں کیلئے۔ فروری کے مہینے کی اکیس تاریخ سے فصل بہار شروع ہوجاتی ہے، خزاں گزیدہ درختوں اور پودوں کی وہ خشک اور خالی خولی شاخیں جو آمد نوبہار کیلئے دست دعا بلند کئے ہوتی ہیں ان پر سبزہ اور ہریالی اُگنے لگتی ہے اور پھر جوں جوں وقت گزرتا رہتا ہے، وہ سرسبز اور شاداب ہوکر چہارسو سبزہ زار اُگا دیتی ہے، کونپلیں پھوٹتی ہیں، کلیاں چٹکتی ہیں، پھول مسکراتے ہیں اور کہنے والے بے اختیار ہوکر پکار اُٹھتے ہیں کہ
چلتے ہو تو چمن کو چلئے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں، کم کم بادو باراں ہے
یہ جو بہار کے موسم میں بارش برستی ہے، اسے ہم سب فصل بہار کی بارش، بہاریہ بارش یا بہاری بارش کہتے ہیں۔ فصل بہار کی بارش اس حوالہ سے بڑی پرمنظر ہوتی ہے کہ اگر یہ ایک مقام پر برس رہی ہو تو اس سے کچھ ہی فاصلے پر سورج کی شعاعیں سنہری دھوپ کے مناظر پیش کرنے لگتی ہیں اور پھر ایسے میں جب یہ شعاعیں فضا میں پھیلے بارش کے قطروں میں سے گزرتی ہیں یا ان سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہیں تو انعکاس نور انعطاف نور کے سبب نیلے گگن پر ایک افق سے دوسرے افق تک پھیلی قوس قزح کے سات رنگ اپنی بہار دکھانے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں مقامی اور علاقائی زبانوں میں آسمان کی وسعتوں میں پھیلی اس دلکش قوس کو بیوی جی دی پینگ یا دا بڈھئی ٹال کہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی وجہ تسمیہ ہوگی قوس قزح کے ان مقامی اور علاقائی ناموں کی جو ہر بات کی ٹوہ میں پہنچنے والے محققین اور سوچ کاروں کو دعوت فکر دیتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں دماغ سے سوچنے والوں کی کمی ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ دماغ سے سوچنا ترک کر کے دل سے سوچنے والے بہاریہ بارش سے جو لطف اور حظ اُٹھاتے ہیں اس میں بلا کا خمار پایا جاتا ہے۔ بارش جس موسم میں برسے بارش ہی کہلاتی ہے اور اگر لفظ بارش کے حروف کو اُلٹا کرکے پڑھا جائے تولفظ شراب وجود میں آتا ہے۔ جبھی تو عبدالحمید عدم نے بارش کو شراب عرش کہتے ہوئے لکھ دیا کہ
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا
بارش کے حروف کو اگر اُلٹا کر شراب پینے کا مزہ نہ بھی لیا جاسکتا تب بھی شراب ایسی بلا ہے جو ہماری شاعری میں در آئے تو اسے خمریات کی مرتبے پر فائز کردے۔ فارسی شاعری میں رباعیات عمر خیام کو خمریات عمر خیام بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں مینا اور جام کی سرخ پری کی باتیں ہیں۔ حرف حرف خمار ہے، لفظ لفظ بہار ہے۔ اُردو ادب میں جوش ملیح آبادی اور عبدالحمید عدم جیسے بہت سے شاعروں نے شراب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اسداللہ خان غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
ہمارے ہاں تصوف میں بھی شراب معرفت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جب یہ بات ہے تو زاہد کیوں نہ حور وقصور اور شراب الطہورکی باتیںکرے۔
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
کتنی خوبصورت شاعرانہ اصطلاح ہے ساقی کی، جس کے ذکر کے بغیر شراب کا تذکرہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس وقت تو ساقی کی اس اصطلاح کا تقدس عرش بریں پر جا پہنچتا ہے جب کوئی شاعر یا مغنی ساقی کے اس لفظ کو
مے کشو آؤ آؤ مدینے چلیں
دست ساقی کوثر سے پینے چلیں
قسم کے شعر لکھتا پڑھتا یا قوالی کی صورت دہرا دہرا کر گاتا ہے۔ لیکن افسوس صدافسوس کہ ہمارے معاشرے میں چرس، ہیروئین، گانجا اور جانے اس قسم کے کتنے ناسور صفت نشوں میں مبتلا کم نصیب ماؤں کے لال منشیات فروشوں کو ساقی کہہ کر پکارتے ہیں، کہاں ملتی ہیں یہ بلائیں، میں نے ایک زردی مائل منشیات زدہ نوجوان سے پوچھا جس کے جواب میں اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہیں سامنے نہر کے کنارے پھر رہے ہوتے ہیں اس کے ساقی، منشیات فروشوں کو وہ ساقی کہہ رہا تھا، اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر مجھ سے ساقی کے لفظ کی توہین برداشت نہ ہوسکی، میں نے اس نہر کی جانب جانے والی پکڈنڈی پر اچٹتی سی نظر ڈالی، وہاں دو وردی پوش پولیس والے کھڑے تھے، شائد وہ وہاں اس لئے پہرہ دے رہے تھے کہ وہاں نشہ پھونکنے والوں کے ساقیوں کی چلتی پھرتی دکانیں اور ان کا چمکتا کاروبار چلتا ہے، مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ کسی کا زردی مائل منشیات زدہ جگر گوشہ پولیس کے دو سپاہیوں کے پہرے کو خاطر میں لائے بغیر اس جانب چل پڑا جہاں ساقی کے ملنے کا امکان تھا۔ کہتے ہیں کہ چلتی پھرتی زندہ لاشوں کے ساقی ان مگرمچھوں کے آلہ کار ہوتے ہیں جو معاشرے کے رگ وپے میں منشیات کا زہر بھرنے میںکوئی کسر روا نہیں رکھتے کہ اندھے قانون کے لمبے ہاتھ ان تک پہنچنے سے پہلے بک جاتے ہیں یا کٹ جاتے ہیں، سعودی عرب اور ملیشیا جیسے ممالک میں منشیات کی سمگلنگ کی سزا موت ہے، ہمارے ہاں بھی ہے، ہماری یہ بات سن کر بھولا باچھا بولا، کہاں ہے، ہم نے پوچھا، اخبار کی ایک سرخی میں تھی، نہ جانے کہاں چلی گئی، بھولے باچھا کی اس بات پر ہم اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے، تڑپ تڑپ کر ہنستے ہوئے کہنے لگے
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت