2 322

مغرب کے سفید فام مودی

جس طرح بھارت میں بدترین اسلاموفوبیا کی لہر پر سوار ہو کر مودی مذہب کو انسانی تقسیم کیلئے استعمال کر رہا ہے بالکل اسی طرح یورپ کا ملک فرانس سفید فام عیسائی جنونیت کی راہ پر چلتے ہوئے انسانوں میں تقسیم اور تفرقہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ ان کوششوں میں مودی کا مقابلہ جہاں عمران خان اور پاکستان پوری قوت سے کر رہے ہیں وہیں فرانس میں مذہبی تعصب اور جنونیت کی لہروں کے آگے ترک صدر رجب طیب اردوان سینہ تان کر کھڑے ہیں، گھن گرج کا اگر کوئی فرق ہے تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ پاکستان کو سلوپوائزننگ کے ذریعے گزشتہ ماہ وسال میں بڑے کردار سے محروم رکھنے کیلئے معاشی اور سماجی طور پر کمزور اور پیراسائٹ بنایا گیا اور اس کی وجہ پاکستان کی طرف عمل کم اور نعرے بازی زیادہ ہے اس لئے وہ اعلانیہ طور پر ہدف بنا رہا۔ ترکی نے اعلان کم اور عمل تیز رکھا اور شاید دنیا کو اندازہ ہی نہیں ترک فوج اس ملک کو کمال ازم کی راہوں سے ہٹا کر ایک بڑے کردار پر آمادہ کرے گی۔ مصطفی کمال پاشا نے مدتوں پہلے اپنے قومی قد کو بونا کرنے کیلئے سب سے پہلے ترکی کا راستہ اپنایا تھا پاکستان کو ”سب سے پہلے پاکستان” کے نظرئیے کی صورت برسوں کی محنت اور کوشش کے بعد اس مقام تک لانے کی بھرپور کوشش ہوئی تھی مگر دونوں ملک اس دباؤ کو غیرمؤثر بنا کر عالمی سطح پر مسلمانوں کیساتھ برتے جانے والے ناروا رویوں کیخلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے پوٹنیشل کو اس کی معاشی بدحالی نے دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے۔ ترکی معاشی طور پر ایک مضبوط ملک ہے اور پاکستان غیرملکی امداد پر دن گزار رہا ہے مگر پاکستان مسلمان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور ایک اہم ہوتے ہوئے خطے میں مرکزی کردار کا حامل ملک ہے۔ پاکستان اور ترکی کے راہنماؤں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے دنیا کو اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرات سے آگاہ کرنے اور اس کیلئے عالمی سطح پر قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر یہ آوازیں صدا بصحرا ہوئیں کیونکہ عالمی ایوانوں میں جو طاقتیں فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتی ہیں وہ درپردہ اسلام کیخلاف نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔ اس لئے وہی قاتل وہی منصف والامعاملہ ہے۔ لے دیکر اس مہم کا مقابلہ مسلمان قیادت اور حکمرانوں کو ہی کرنا ہے مگر یہاں یہ عالم ہے کہ اکثر مسلمان قیادتیں اپنے عوام سے نظری لحاظ سے ایک وسیع خلیج پر کھڑی ہیں۔ مسلمان رائے عامہ کی سوچ کسی اور رخ بڑھتی ہے تو ان کی قیادتیں اس کی متضاد سمت میں سوچ رہی ہیں۔ اس وقت بھی فرانس کے صدر کے معاندانہ خیالات کی گرفت کرنے میں ترکی پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان دوسرے نمبر ہے اس کے سوا تمام مسلمان حکمران منہ میں گھگیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ تجارت اور مصلحت نے انہیں ”حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے” کی عملی تصویر بنا ڈالا ہے۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت اور فرانسیسی حکومت کی طرف سے اسے آزادیٔ اظہار قرار دیکر حمایت کرنے کی روش نے دنیا بھر کے کم وبیش دو ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رکھا ہے۔ برداشت، آزادیٔ اظہار، تحمل اور رائے کے احترام کے نام پر مغرب میں ایک متعصب ذہن نے مسلمانوں، شعائر اسلام اور مسلمانوں کی قابل احترام شخصیات کیخلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ یہ سراسر غیرانسانی اور وحشیانہ رویہ ہے کہ اپنی انا کی تسکین کی خاطر دوارب انسانوں کے جذبات کو پیروں تلے رونڈ ڈالا جائے۔ حقیقت میں اس کے مقاصد بہت گہرے ہیں۔ متعصب ذہن کی یادیں صلیبی جنگوں میں ہی اٹکی نہیں بلکہ ان کا ذہن فتح مکہ اور مدینہ کی شناخت کی تبدیلی میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ ابھی تک غزوات میں لگنے والے زخموں کو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ وقت کا مرہم قبول کرنے کی بجائے تاریخ میں لگنے والے زخموں کو بحال اور تر وتازہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی منتقم مزاجی بدترین ردعمل بن کر گستاخانہ رویوں کے فروغ اور پرورش کا باعث بن رہی ہے۔ صلیبی جنگیں تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ یہ فتنہ پرور ذہنیت اور سوچ اب ریاستوں پر غلبہ حاصل کر رہی ہے جس طرح ہندو انتہا پسندی مودی اور ان کے ہمنواؤں کی صورت ریاستی طاقت کو استعمال کرنے کے مقام تک پہنچ چکی ہے اسی طرح سفید فام عیسائی انتہا پسندی اب ملکوں اور ریاستوں کی سوچ بن رہی ہے۔ فرانس اور ہالینڈ جیسے ملک اسی دور سے گزر رہے ہیں جہاں ان کے حکمران طبقات اسلاموفوبیا کے عارضوں کا شکار ہیں اور ان کا یہ اسلاموفوبیا ان کے ذاتی نظریات تک محدود رہنے کی بجائے ان کی ریاستوں کا نظریہ بن رہا ہے۔ فرانس اس وقت اسلاموفوبیا کی لہروں کا حکومتی سرپرست بن کر سامنے آرہا ہے اور طیب اردوان اس لہر کا مقابلہ کررہے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں گستاخانہ خاکوں کا دفاع کرنے والوں میں پیش پیش ہیں۔ ترک صدر نے فرانسیسی سفیر کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے۔ ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ترک صدر کا یہ انداز بیان مسلمان رائے عامہ کے جذبات کی عکاسی کر رہا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ دل ودماغ میں اسلامو فوبیا کی نفرت انگیز آگ دہکائے مغرب میں کئی سفید مودی اُبھر کر سامنے آرہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات