arif bahar 24

جوبائیڈن اور جنوبی ایشیا کا چیلنج

امریکہ میں جو بائیڈن کی صدارت اب چند قدم کی دوری پر ہے ۔اس تھیلی سے پاکستان کے لئے کیا برآمد ہوتا ہے ؟اس پر نیم دلانہ انداز سے کچھ نظریں مرکوز ہیں ۔نیم دلی اس لئے کہ جوبائیڈن اوباما کے پورے دور میں نائب صدر کے طور پر کام کرتے رہے اور یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان شدید گھٹ پٹ کا زمانہ تھا ۔ایک طرف ڈرون حملوں کا سلسلہ عروج پر تھا تو دوسری طرف ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات رونما ہورہے تھے اور کیری لوگر بل اور سلالہ جیسے ناخوش گوار واقعات رونما ہورہے تھے یہی نہیں ایبٹ آباد آپریشن کا زمانہ بھی یہی تھا ۔ناخوش گوار یادوں کے اس بوجھ کو دیکھیں تو جو بائیڈن انتظامیہ سے کسی خوش فہمی کی توقع خودفرییی ہی معلوم ہوتی ہے ۔امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کو ہلہ شیری دے کر پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔منیر اکرم نے جوبائیڈن انتظامیہ کے حوالے سے زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ”اگر مگر ” کا سہارا لے کر کہا تھا کہ اگر بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہی تو اس سے حالات میں کوئی سدھار نہیں آئے گا۔ آزادکشمیر کے صدر مسعود خان نے جو بائیڈن انتظامیہ سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن بھارت سے گہرے تعلقات کا ایک مضبوط حوالہ ہیں ۔1975میں جب بھارت نے پہلی بار ایٹمی دھماکے کئے تو امریکی کانگریس میں بھارت پر پابندیوں کی قرارداد پیش کی گئی تھی ۔یہ قرارداد ایک ووٹ سے ناکام ہوئی تھی اور بھارت پابندیوں کا شکار ہونے سے بچ گیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ووٹ سینیٹر جو بائیڈن کا تھا جو آج امریکہ کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔اس مضبوط پس منظر کے باعث بھارت کے پاس امریکہ کی نئی انتظامیہ سے زیادہ خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں ۔گوکہ نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ شخصی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی ۔”نمستے ٹرمپ ”کی صورت ٹرمپ کا دورہ بھارت اور” ہاوڈی مودی”کی صورت مودی کے دورہ ٔ امریکہ کے دوران مودی نے ٹرمپ کے ساتھ شخصی تعلق اور دوستی کو فروغ دینے کی کوشش کی ۔ایک دوملاقاتوں میں تو مودی نے ٹرمپ سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس قدر گرم جوشی دکھائی تھی کہ قریب تھا کہ وہ ہلاہلا کر ٹرمپ کا بازوہی نکال لیتے ۔ایک دو بار تو مودی مضحکہ خیز انداز میں کوروناسے زیادہ شدت کے ساتھ ٹرمپ سے چمٹتے رہے یہاں تک ٹرمپ کو اپنا آپ چھڑانا مشکل ہوگیا تھا ۔یہ مودی کی ذاتی دوستی کی کمند تھی جو پاکستان کے حکمرانوں پر ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی تھی جب مودی بن بلائے لاہور پہنچ آئے تھے ۔مودی اظہار محبت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ”اب کی بار ٹرمپ سرکار ” کے نعرے بھی لگابیٹھے ۔ماضی کے اس گرم جوش اظہار تعلق کے باعث بھارت کے حکمرانوں کو امریکہ کی نئی انتظامیہ کو خوف اور تجسس سے دیکھنا فطری امر ہے مگر امریکہ اور بھارت کے تعلقات اب جس نہج پر چل پڑے ہیں اس میں یہ شخصی ربط وتعلق کی اہمیت باقی نہیں رہی ۔امریکہ کو عالمی اور علاقائی سیاست میں بھارت کی ضرورت ہے اور اس بات کے قطع نظر کہ بھارت میں کون برسراقتدار ہے اور کون نہیں۔بھارتیوں کے لئے ایک معمولی سی پریشانی کی بات امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کے کشمیر کے حوالے سے دئیے جانے والے بیانات ہیں ۔پانچ اگست کے بعدجب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں شدید پابندیاں نافذ کر رکھی تھیں کملا ہیرس نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیریوں کو یاد دلانا ہے کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اگر حالات کا تقاضا ہوا تو ہمیں مداخلت کی ضرورت پڑے گی۔اس موقع پر انہوںنے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پر براہ راست تنقید بھی کی تھی ۔اسی دوران امریکی کانگریس کی ایک اور ہندوستانی نژاد رکن پامیلا جے پال نے ایوان نمائندگان میں کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے خلاف قرارداد پیش کی تھی اور جے شنکر اس وقت امریکہ میں ہی موجود تھے۔جے شنکر نے امریکہ کانگریس کی خارجہ امورکمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا تھا اور ا س کی وجہ پامیلا جے پال کی کمیٹی میں موجود بتائی تھی ۔کملا ہیرس نے بھارتی وزیر خارجہ کے اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت کو کانگریس کو یہ بتانے کا حق نہیں کہ اجلاس میں کون سے ارکان شریک ہو سکتے ہیں۔کملا ہیرس کا نائب صدر کے طور پر انتخاب ان بیانات کی وجہ سے بھارتیوں کے لئے پریشانی کی وجہ ہے اور بھارت کا میڈیا دبے لفظوں میں اس حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہا ہے ۔وسیع پس منظر میں دیکھیں تو بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں کمی یا ضعف کی بجائے مضبوطی ہی دکھائی دیتی ہے کیونکہ دونوں کے تعلقات” چین سینٹرک” ہو کر رہ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے جانے اور بائیڈن کے آنے میں پاکستان کے لئے خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا