p613 189

پشاور میں پی ڈی ایم کا ناکام جلسہ

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گوجرانوالا، کراچی اور کوئٹہ کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ جلسے سے اہم پارٹی رہنمائوں نے خطاب کیا، جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمان نے کہا کہ ہم جنگ کا اعلان کرچکے ہیںاور اب میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کی خواہش پر بننے والی حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سلیکٹیڈ حکومت کو گھر جانا ہو گا ورنہ ملک ترقی نہیں کرے گا، اب ان کے جانے کا وقت آگیا ہے، یہ جنوری تک کے مہمان ہیں، جنوری ان کا آخری مہینہ ہے ۔دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے باعث اگر ملک میں لاک ڈائون کرنا پڑا تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن ہوگی۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے پشاور میں ہونے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کو مکمل طور پر ایک فلاپ شو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی عدم شرکت کے باعث پی ڈی ایم کا جلسہ بری طرح ناکام ہوگیا، پشاور کے باشعور عوام نے اس جلسے میں عدم شرکت کرکے پی ڈی ایم کے ملک مخالف بیانئے کو یکسر مسترد کر دیا۔ محمود خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کے نام پر مسترد شدہ لوگوں کا یہ ٹولہ اپنی سیاست کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کیلئے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ملک کو کئی عشروں سے باری باری لوٹنے والے ناکام سیاستدانوں کا یہ ٹولہ صرف اپنی کرپشن بچانے کیلئے اکھٹا ہو کر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان انہیں کبھی این آر او نہیں دیں گے اور ان سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی کا حساب لیں گے۔ حکومت کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسے کے انعقاد کیلئے کھلی چھٹی دینا اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے بہرحال اس کا ایک طرح سے سیاسی فائدہ یہ ہوا کہ کھلی چھٹی ملنے اور بڑی تیاری کے باوجود پی ڈی ایم کا جلسہ متاثر کن نہ رہا۔ یہ جلسہ جے یو آئی اور اے این پی کیلئے خاص طور پر امتحان تھا کہ وہ صوبائی دارالحکومت میں ایک بڑا جلسہ کر کے صوبے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو چیلنج کر لیتے، اس میں ان کو پی پی پی اور مسلم لیگ(ن)کے علاوہ قومی وطن پارٹی اور دیگر جماعتوں کی مدد حاصل تھی مگر ایسا لگتا ہے کہ ساری جماعتیں مل کر بھی اب بھی صوبے میںتحریک انصاف کی حکومت کوللکارنے اور ان کی مقبولیت میں کمی کو ثابت کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود کہ مہنگائی کے باعث عوام حکومت سے سخت نالاں ہیں شاید اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ کورونا کے پھیلائو اور اس سے لوگوں کو خود کو بچانے کی فکر غالب رہی ہو بہرحال وجوہات جو بھی ہوں پی ڈی ایم پشاور کے جلسہ کی ناکامی لمحہ فکریہ ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام قرار دینے میںحق بجانب ہیں، اتنی تیاری کے بعد کوئی بھی جماعت اکیلے ہی جلسہ کرتی تو ممکن ہے اس سے زیادہ لوگ شریک ہوتے، سات آٹھ بڑی سیاسی جماعتوں اور سوات میں جماعت اسلامی کے جلسے کے شرکاء میں کتنا فرق تھا اس کا درست اندازہ نہیں لیکن بہرحال یہ بات طے ہے کہ پی ڈی ایم پشاور کا جلسہ ناکام رہا اور عوام نے ان سیاسی جماعتوں کے بیانئے پر کان نہ دھرا۔ پی ڈی ایم کو یہ خفت مٹانے کیلئے اب صوبے کے کسی اور جگہ جلسہ عام کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے، یہ چیلنج اب جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن کو قبول کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑا جلسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے جلسے تو کچھ عرصہ قبل ہی اسی دور حکومت میں مولانا فضل الرحمن اکیلے ہی کرتے آئے ہیں اس جلسے کی ناکامی ممکن ہے اندرونی چپقلش اور عدم دلچسپی کا نتیجہ ہو۔ جہاں تک پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی تقاریر کا تعلق ہے اس میں کوئی نئی بات نہ تھی سوائے مولانا فضل الرحمن کے اس فتوے کے جس کے مطابق اب اس حکومت کیخلاف جہاد فرض ہوگیا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس حکومت کیخلاف اپنا سب کچھ دائو پر لگاچکے ہیں اور اس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں شاید اس لئے ان کی نظر میں تمام مسائل کا حل حکومت کی رخصتی ہے۔ کورونا کے پھیلائو کے عالم میں پی ڈی ایم نے جلسوں پر جلسے کی جو رٹ لگا رکھی ہے وہ کورونا کے پھیلائو میں مدد گار فعل ہے جس پر جتنا جلد نظر ثانی کی جائے اتنا بہتر ہوگا۔ آئندہ ہفتہ عشرہ صوبے میں اگر کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ریکارڈ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار پی ڈی ایم قیادت کو ٹھہرانا الزام نہ ہوگا۔ صوبائی حکومت نے اگرچہ پی ڈی ایم کی بلااجازت جلسے کا انعقاد ہونے میں انتظامی رکاوٹ نہ ڈال کر سیاسی مقاصد تو حاصل کرلئے لیکن کورونا کے ممکنہ پھیلائو میں اضافے کی صورت میں حکومت بھی بری الذمہ نہیں کیونکہ حکومت نے ایک اجتماع کوروکنے کی کوئی سعی نہیں کی۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن