tanveer ahmad 28

ہمارے بچپن کا پشاور

اپنی جنم بھومی سے سب کو پیار ہوتا ہے ہم بھی اپنے پیارے شہر پشاور سے بہت محبت کرتے ہیں، اس کی گلیوں میں کھیل کر جوان ہوئے بچپن کی یادیں ساری زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں، آپ جہاں بھی چلے جائیں اپنے شہر اپنے علاقے کی محبت ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، کل ہمارے بچپن کے ایک دوست نے کچھ بچپن کے دوستوں کو عشائیے پر مدعو کیا، کھانا تو پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا ایک بہانہ تھا، سب دوست اپنے بچپن کے پشاور کو یاد کرتے رہے، سارا تذکرہ اس زمانے کا ہوتا رہا جب پشاور آج کی طرح مسائل کے انبار تلے نہیں دبا ہوا تھا، آج کی طرح بے ہنگم ٹریفک کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی بہتات نہیں تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب پشاور کی سڑکوں پر سائیکلوں کا دور دورہ تھا یا پھر ٹانگہ ہی عام آدمی کی مقبول سواری تھی، اکا دکا سکوٹر نظر آجاتا تھا یا پھر کوئی موٹرکار، سائیکل بھی بہت کم بچوں کے پاس ہوتی تھی۔ اس وقت کرائے کی سائیکل کا رواج تھا، پشاور کے ہر علاقے میں کرائے کی سائیکلوںکی ایک آدھ دکان ضرور ہوتی تھی ہم دوچار دوست کرائے کی سائیکلیں لیکر پشاور کی سڑکوں پر بھگاتے رہتے تھے، آبادی کم تھی، گاڑیاں گنتی کی تھیں، اس لئے ٹریفک حادثات نہ ہونے کے برابر تھے، سڑکیں اس لئے بھی کشادہ تھیں کہ آج کی طرح تجاوزات نہیں تھیں، اب تو پشاور کے بازار تجاوزات کی وجہ سے کنجوس کے دل کی طرح سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ قصہ خوانی کے فٹ پاتھ پر بھانت بھانت کے شو کیس سجے نظر آتے ہیں، دکاندار اپنی دکان کے آگے فٹ پاتھ پر اشیاء سجائے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے راہگیروں کیلئے راستہ چلنا دشوار ہوگیا ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں کیلئے تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہماری ہر صوبائی حکومت پشاور کی ترقی اس کی فلاح وبہبود کے حوالے سے اعلانات تو بہت کرتی ہے تھوڑا بہت کام بھی ہوجاتا ہے لیکن ابھی تک ایسا کام نظر نہیں آیا جس میں صرف اور صرف خلوص ہوتا۔ ناموں کی تختیاں لگا دی جاتی ہیں، جن پر کسی وزیر یا ایم پی اے کا نام جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کے دست مبارک سے اس کا افتتاح کیا گیا بعد میں پھر اس طرف کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا۔ گھنٹہ گھر سے لیکر تحصیل گورگھٹڑی تک بازار کو نیشنل ہیریٹیج میں تبدیل کردیا گیا، قہوہ خانوں کو ازسرنو سجایا گیا جس میں یقینا قدامت کا رنگ جھلکتا ہے، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوگوں کیلئے خوبصورت لکڑی سے بنی ہوئی میزیں اور کرسیاں بھی ڈال دی گئیں تاکہ لوگ اپنے فارغ اوقات میں یہاں بیٹھ کر گپ شپ لگائیں۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے لیکن ٹریفک کا سلسلہ یہاں بھی دوسرے بازاروں کی طرح رواں دواں رہتا ہے جس کی وجہ سے نیشنل ہیریٹیج کا سارا لطف غارت ہوگیا ہے، کتنا اچھا ہوتا کہ اس بازار کو نیشنل ہیریٹیج میں تبدیل کر دینے کے بعد یہاں کی ٹریفک کو دوسرے راستوں پر منتقل کر دیا جاتا تو یہ بازار گرد وغبار اور شور شرابے سے محفوظ رہتا اور لوگوں کو یہاں کے پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہونے کا خوب موقع ملتا۔ پشاور میں پچھلے چند برسوں میں تجاوزات کیخلاف بڑے بھرپور اور کامیاب آپریشن ہوئے اور بہت سے بازار صاف ستھرے اور وسیع ہوگئے لیکن پھر بعد میں ان کی کوئی خبر نہیں لیتا اس لئے دکاندار آہستہ آہستہ پھر اپنی دکانوں سے باہر نکل آئے ہیں، اب پھر مسائل کا سامنا ہے کبھی کبھی متعلقہ ادارے کے لوگ ایک نام نہاد قسم کا چھاپہ مارتے ہیں لیکن یہ چھاپہ اس لئے برائے نام ہی ہوتا ہے کہ دکانداروں کی ان کیساتھ مک مکا پہلے سے ہوچکی ہوتی ہے اس لئے چھاپہ مار ٹیم کے موقع واردات پر پہنچنے سے پہلے ہی تجاوزات ہٹا لی جاتی ہیں جب چھاپہ مار ٹیم آگے بڑھ جاتی ہے تو تھوڑی دیر بعد تجاوزات پھر اپنی جگہ سنبھال لیتی ہیں۔ کل اپنے پیارے شہر پشاور کے حوالے سے ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے، ہائی کورٹ نے پشاور شہر میں تاریخی اہمیت کے حامل باغات اور پارکوں کی بحالی اور مغلیہ دور کے مشہور شاہی باغ اور وزیرباغ کو نیشنل ہیریٹیج فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے اور اگلی سماعت میں اس حوالے سے مکمل رپورٹ طلب کرلی ہے۔ پشاور کے مشہور جناح پارک کی بحالی کے حوالے سے بھی ہدایات دی گئی ہیں، بی آرٹی کی وجہ سے جو چاردیواری گرادی گئی تھی جس کی خبر پی ڈی اے نے پھر نہیں لی اس کی تعمیر کے احکامات بھی جاری کئے گئے۔ ایک حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ ابھی تک شاہی باغ اور وزیرباغ نیشنل ہیریٹیج لسٹ میں شامل نہیں تھے اگر پشاور کے دو خوبصورت تاریخی باغات ہی نیشنل ہیریٹیج لسٹ میں شامل نہیں ہیں تو پھر اس لسٹ میں کیا شامل کیا گیا ہے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جس کا سمجھنا ارباب اختیار کے بس کی بات نہ ہو بس بات صرف اور صرف لاپرواہی کی ہے ترجیحات کی ہے، اگر پشاور کی خوبصورتی ہماری ترجیح اول ہوجائے تو یقینا اس نظرانداز کئے گئے شہر کو پھر سے خوبصورت اور رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل گمبھیر ہیں لیکن انہیں حل کرنا ناممکن تو نہیں ہے بس اس کیلئے محبت اور درددل کی ضرورت ہے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس