5 88

اختلافات ہٹا کر رکھئے

ہلال عید سب سے پہلے پشاور میں نکلتا ہے، کہ اس شہر کو مغلیہ حکمرانوں نے ‘پیش آور’ کہہ کر پکارا تھا، پشاور کسی زمانے میں شاہراہ ابریشن کے آخری کنارے پر ہونے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی بہت بڑی تجارتی منڈی تھی اور یہاں کے ہنرمند دنیا بھر میں مقبول تھے جن کی وجہ سے اس شہر کو ‘پیشہ ور’ بھی کہا جانے لگا، جو وقت کی رفتار کیساتھ بدلتے بدلتے پیش آور یا پیشہ ور سے پشاور بن گیا اور شعرائے کرام کہتے رہ گئے کہ
پشاور کے حسیں ماحول پر جنت بھی نچھاور ہے
خدا رکھے پشاور کو پشاور پھر پشاور ہے
ہم جب پشاور کے حوالہ سے کوئی بات کرتے ہیں تو وہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ خیبر پختونخوا کی بات ہوتی ہے کیونکہ پشاور صوبائی دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے پورے صوبہ کے ہر اس شہر گاؤں قصبہ قریہ اور نگر کی نمائندگی کرتا ہے جو اس صوبہ کی حدود میں آ تا ہے۔
بہاریں پھولتی پھلتی ہیں آغوش پشاور میں
پشاور لالہ وگل کے سمندر کا شناور ہے
رمضان المبارک یا عیدالفطر کا چاند دیکھنے کیلئے یہاں کی تاریخی مسجد قاسم علی خان کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شہر پشاور کا نام، چہار دانگ عالم میں مسجد قاسم علی خان کا چرچا اس کی تاریخی اہمیت سے زیادہ ملک بھر میں رمضان المبارک اور عید الفطر کے سب سے پہلے نظر آنے والے چاند کا وہ ریکارڈ اعلان ہے جس کو آج تک کوئی بھی مائی کا لال نہ توڑ سکا اور نہ چیلنج کر سکا ہے،
مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے
وہ دشمنی بھی پر وقار کرتا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر دور حکومت میں سرکاری سرپرستی میں ہر ہجری یا اسلامی مہینہ کے آخری دن سر شام عید الفطر یا رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمان کی سربراہی میں چیدہ چیدہ علمائے کرام پر مشتمل کمیٹی کے اراکین کا دستہ ملک کے کسی ایک شہر کی کسی ایک بہت اونچی عمارت کا انتخاب کرکے اس پر نہایت طاقتور دوربینوں کی مدد سے چاند تلاش کرنے لگتے ہیں اور یوں چاند نظر آنے کی یا نظر نہ آنے کی صورت میں ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں شامل ہر مسلک یا مکتبہ فکر سے منتخب علمائے کرام کے متفقہ فیصلہ کی روشنی میں چاند نظر آنے یا نہ نظر آنے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ اس بار مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 23مئی کو کراچی میں ہونا قرار پایا ہے جبکہ مسجد قاسم علی خان میں شہادتوں کی بنیاد پر چاند نظر آنے کے اعلان کیلئے جمعہ 22مئی کی شام مقرر کی گئی ہے، جمعہ 22مئی کی شام کو مسجد قاسم علی خان کے اندر اور مسجد سے باہر حسب سابق پشاور اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ دور پار سے آئے ہوئے شہادتیوں کا جم غفیر اکٹھا ہوجائے گا، مولانا عبد القیوم پوپلزی اپنے آباؤ اجداد کی گدی پر رونق افروز ہوں گے اور آپ حسب روایت چاند دیکھنے کی شہادت دینے والوں کی بنیاد پر عید کا چاند نظر آنے کا اعلان کردیں گے، جسے سنتے ہی لڑکیاں بالیاں چاند رات منانے لگیں گی، ہاتھوں پر مہندی، کلائیوں میںکانچ کی چوڑیاں یہ ثابت کرنے لگتی ہیں کہ
چاند کا حسن بھی زمین سے ہے
چاند پر چاندنی نہیں ہوتی
چاند رات منانے والی سکھیوں سہیلیوں اور لڑکیوں بالیوں کے یہ تیور دیکھ کر لڑکے بالے آپے سے باہر ہوکر آتشیں اسلحہ اُٹھا کر چاند ماری یا ہوائی فائرنگ کرنے لگیں گے، چاند رات منائی جائے گی اور پھر دوسرے ہی روز لوگ عید کی نماز پڑھنے اور فطرانہ ادا کرنے مسجدوں کی جانب روانہ ہوجا ئیں گے، لیکن جن لوگوں نے مرکزی رویت ہلال کی تقلید میں روزہ رکھا ہوا ہوگا وہ عید منانے والوں کو کوستے رہ جائیں گے، مرکزی رویت ہلال کمیٹی والے ہفتہ 23مئی کی شام کراچی کی کسی اونچی بلڈنگ پر کھڑے ہوکر طاقتور دوربینوں کی مدد سے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کہاں دیکھا تھا پشاور والوں نے عید کا چاند، یہ طرفہ تماشا ہر سال رچتا ہے اور بے چارے تقویٰ دار پاکستانی اس تذبذب کا شکار ہوکر کہتے رہ جاتے ہیں کہ اس بار بھی نہ منا سکے ہم عید ایک ہی دن، مسجد قاسم علی خان کے مفتی عبدالقیوم پوپلزئی نے چاند کے ہر قیمت پر نظر آنے کا جو طریقہ اپنا رکھا ہے، وہ ان کا جدی پشتی طریقہ ہے، اس دور کا جب نہ اتنی طاقتور دوربینیں تھیں اور نہ محکمہ موسمیات کا سیٹیلائٹ سسٹم، مسجد قاسم علی خان میں شہادتیں موصول ہونے کا سلسلہ دیر تک جاری رہتا ہے کہ وہ صوبہ بھر سے موصول ہوتی رہتی ہیں، اس عمل پر اچھا خاصا وقت صرف ہوتا ہے اور پھر قریہ قریہ پھیلی مساجد کا نیٹ ورک اپنے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعہ چاند نظر آنے کا اعلان کرتا ہے تو اس پر بھی وقت صرف ہوتا ہے، اور یوں ہم کونصف شب کے قریب عید کا چاند نظر آنے کی خبر پہنچتی ہے، پشاور والے جب عید کا پہلا دن گزار لیتے ہیں تو رویت ہلال کمیٹی والے چاند دیکھنے کیلئے اونچی عمارتوں پر لگی دوربینوں میں جھانک کر چاند رات کی مہندی دیواروں پر تھوپنے کی رسم ادا کرتے ہیں، اس جنگ میں فتح کس کی ہوتی ہے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کیونکہ اگر پوپلزئی مسلک کے علماء روایت پسند ہیں تو منیب مسلک کے لوگ بھی تو محکمہ موسمیات کی ٹیکنالوجی کو خاطر میں نہیں لاتے اور یوں ہاتھیوں کی اس لڑائی میں کچلے جانے والے روزہ دار پکار پکار کر کہنے لگتے ہیں
عید کا دن ہے گلے مل لیجئے
اختلافات ہٹا کر رکھئے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے