p613 18

حساس فیصلہ

ملک میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چارہزار سے زائد افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنا اور اٹھتر اموات وباء میں تیزی کا پتہ دے رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا گیا ہے، خلاف ورزی پر تعزیر ہوگی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اب تک کورونا کے 76ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے گئے ہیں جن میں سے ستائیس ہزار ایک سو دس مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت لاہور سب سے متاثرہ شہر ہے، صوبائی دارالحکومت پشاور بھی بری طرح وباء کی لپیٹ میں ہے۔اندریں حالات لاک ڈائون کا تقریباً خاتمہ کردیا گیا ہے، ہفتہ اتوار ہی لاک ڈائون رہے گا۔ جمعہ کو دکانیں کھولنے اور سیاحت پر پابندی ختم کرنے کیساتھ ساتھ بیشتر شعبے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ہونے والی لاک ڈائون کی ایک مرتبہ پھر مخالفت اور مرضی کیخلاف صوبوں کا اقدام قرار دیا گیا ہے، محولہ حالات میں جہاں کورونا کے پھیلائو میں اضافے پر لاک ڈائون میں سختی اور مزید بندش کی وکالت کی جاسکتی ہے حکومت نے مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات میں اضافے کے باوجود معیشت کو مزید مشکلات سے دوچار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دنیا کے دیگرممالک میں کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی آنے اورصورتحال کو دیکھتے ہوئے فیصلے کئے گئے ابھی پاکستان میں اٹلی جیسی صورتحال نہیں لیکن اس کے باوجود لاک ڈائون کے تقریباً خاتمے کا اعلا ن کردیا گیا، یہاں تک کہ سیاحت کو بھی کھولنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حکومت نے طوعاً وکرھاً فیصلہ کیا ہے یا پھر اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا کہ کورونا پر قابو اور معیشت میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے۔ حکومت نے معاشی سرگرمیوں کی بحالی کافیصلہ کرتے ہوئے یہ ذمہ داری عوام پر ڈال دی کہ وہ کورونا سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کر یں۔ لاک ڈائون کے معاشی اثرات کو دیکھا جائے تو حکومتی فیصلے سے اختلاف کی گنجائش نہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وباء کا پھیلائو اور جانی نقصان میں اضافہ سے بھی صرف نظر کی گنجائش نہیں، اس صورتحال میں حکومت کا فیصلہ حساس اور انتہائی حساس ہے بہرحال اب جبکہ اس امر کا فیصلہ ہوچکا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دورخ کے حوالے سے ٹھوس حقیقتیں واضح ہیں، اب اس فیصلے کے مضر ات اور وباء کے پھیلائو میں مزید اضافہ نہ ہونے کا انحصار عوام کی جانب سے تعاون اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں ہے۔ احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور حکومت کے وضع کر دہ طریقہ کار کے تحت کاروبار کیا جائے تو معیشت کو سہارا دینے کیساتھ ساتھ صحت عامہ کا تحفظ بھی بڑی حد تک ممکن ہوسکے گا۔ مگر ایسا اگر نہ کیا جائے یا اس سلسلے میں عوامی سطح پر کوتاہی کی گئی تو اس کے نتائج صحت عامہ اور معیشت دونوں کیلئے ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں۔ کورونا کی زنجیرکو توڑنا عوام کے خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے سے ممکن ہے جب معاشرے کا ایک ایک فرد اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو یہ ایک بڑامؤثر قدم ہوگا۔ ماہرین اس کے ویکسین دریافت ہونے تک حفاظتی تدابیر ہی پر زور دے رہے ہیں، حکومت نے حالات کے تناظر میں درمیانی راستہ اختیار کیا ہے کہ لوگوں کو حفاظتی تدابیر کیساتھ کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہر حکومت نے اس وباء کا مقابلہ اپنی معاشی قوت برداشت کے مطابق کیا ہے۔پاکستان کی معیشت اور عوام کی اکثریت روزگار اور کاروبار کی اس سے زیادہ بندش کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، اس لئے حکومت کا اس فیصلے ہی پر پہنچنا فطری امر تھا۔ اس فیصلے کے منفی اثرات وخطرات ضرور سامنے آئیں گے جن کو محدود اور کم کرنے کیلئے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے، حکومت کو بھی حفاظتی تدابیر کی خلاف ورزی پر سخت رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ وباء اس وقت قدر بے قابو نہ ہونے پائے کہ لوگ خود ہی گھبرا کر گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیں یا پھر خدانخواستہ موت کے منہ میں چلے جائیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟