editorial 4 9

تجھ کو جینے کی ادا دے کے چلا جاؤں

آج جون کے مہینے کی پانچ تاریخ ہے اور پاکستان سمیت ساری دنیا میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا۔ یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کا ماحول جتنا صاف ستھرا ہوگا، اس ماحول میں رہنے والے لوگ بھی صاف ستھرے ، اچھی صحت اور اچھے اخلاق کے مالک ہونگے ، مگر عہد حاضر میں ہم جس طرف دیکھتے ہیں ماننا پڑتا ہے کہ
نہیں ہے شہر میں کوئی ترو تازہ
عجیب طرح کی آلودگی ہوا میں ہے
سچ پوچھیں تو آبادی میں بے تحاشا اضافہ کے علاوہ نت نئی جنم لینے والی ایجاد ات نے ہمارے ماحول کو اس قدر پراگندہ اور آلودہ کرکے رکھ دیا ہے کہ کرہ ارض پر نہ صرف ہمارا بلکہ دیگر مخلوقات عالم کا رہنا یا سکھ کا سانس بھرنا مشکل سے مشکل تر ہوکر رہ گیا ہے ۔ ماحول کو پراگندہ کرنے والی آلودگیوں کی مختلف اقسام گنوائی جاتی ہیں جن میں فضائی، آبی، زمینی، سمندری برقی، صوتی ، تہذیبی،اخلاقی،اور جانے کون کون سی آلود گیا ں شامل ہیں اور ان آلودگیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ضرر رساں اثرات زمین پر رہنے والوں کا جینا محال کرنے کا باعث ہیں ۔
کتنے شہروں کی آلودگی کو ہوا نے اکٹھا کیا
اور مرنے پہ آئے تو ہم مر گئے گل کی مہکار سے
ماحولیات کے عالمی دن انسانی صحت اور کرہ ارض پر مرتب ہونے والے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیکر ان کو صحت افزا بنانے کے موضوع پر غور کر نے کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے۔تاکہ عالمی سطح پر اس شعور کو بیدار کیا جاسکے جو ماحول کو پراگندہ ہونے سے بچا سکتا ہے تاکہ زمیں پر رہنے والے 7 1رب سے زائد لوگ مل کر اس مسئلہ پر غور کریں کہ ہم جس تیز رفتاری کو اپنے ارد گرد کے ماحول کو پرا گندہ کررہے ہیں وہ کتنا تباہ کن ہے۔ ہماری گاڑیوں کے سائلنسر و ں سے کارخانوں اور باورچی خانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ٹریفک چلنے سے اٹھنے والی دھول، دھواں اور گردو غبار، مشینوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی گھن گرج اور بے پناہ گرمی ، حدت کوڑا کچرا ا ور تعفن وغیرہ نجانے کتنی قسم کی بیماریوں کا پیش خیمہ ہیں ، یہ صرف انسانی یا حیوانی زندگیوں کے لئے خطرہ نہیں ان عوامل نے آسمان پر تیرتی اوزون کی تہہ کو بھی چھید ڈالا ہے۔ اوزون کی وہ تہہ جو قدرت نے ہمارے سروں پر اس لئے تان رکھی تھی کہ ہم انسانی صحت کے لئے نقصان دہ اور ضرر رساں شعاعوں سے محفوظ رہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جس تیز رفتاری سے ماحول کو پراگندہ کیا جانے لگا اس کی تباہ کن رفتار کو دیکھ کر دنیا جہان کے اہل دانش کو اس بات کی تشویش لاحق ہوئی کہ انسانی زندگی کے لئے تنگ ہونے والی دنیا کو کیسے بگڑے ماحول کی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف انسانیت کو محفوظ کیا جاسکے بلکہ دیگر مخلوقات عالم کو بھی ماحول کو پراگندہ کرنے والی آلودگیوں کے اثرات سے بچایا جاسکے۔ اس سلسلہ میں جہاں آلودگی پیدا کرنے کے بنیادی عوامل میں سے سب سے بڑی وجہ بڑھتی آبادی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لئے دنیا بھر کے لوگوں کا شعور بیدار کرنے اور ان کو آلودگی کے تدارک کے لئے اجتماعی اور انفرادی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ،
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
کے مصداق اگر ہم انفرادی طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول کو پراگندہ ہونے سے بچانے کی کوشش نہ بھی کر سکے تو کم از کم اتنا تو جان سکیں گے کہ ہم بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے اردگرد کے ماحول کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اگر آج کے دن ہم اتنا بھی جان کر اپنے اندر اس احساس یا شعور کو بیدار کر لیں جو ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا موجب ہوسکتا ہے تو ہر سال 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن منانے کا مقصد کسی حد تک پورا ہو جائے گا ۔ آلودگی کے سبب زمینی تو زمینی سمندری حیات کے لئے بھی خطرات پیدا ہوگئی ، ہماری فضاؤں میں اڑنے والے پرندے بھی ماحول کے پراگندہ ہونے کا شکار ہونے لگے ،
اس لئے بے مہر موسم اب ستاتے ہیں
دھوئیں کے ، گرد کے ، آلودگی کے ، شور کے موسم
کس قدر قیامت ڈھائی ہے جسموں کے ملاپ سے پھیلنے والی اس زہر نے جسے ہم کرونا کا نام دیتے ہیں ، سارا کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ، لیکن یہ بات بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ کرونا کے سبب پیدا ہونے والے لاک ڈاؤن نے کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتے دھویں کو روک دیا ، مشینوں کی گڑگڑاہٹ رک گئی ، سڑکوں پر دھول دھواں اڑاتی ٹریفک تقریباختم ہوکر رہ گئی آسماں پر چمکتے ستارے صاف نظر آنے لگے ، موسم خوشگوار سے خوش گوار تر ہوتا چلا گیا اور ہمیں محسوس ہونے لگا جیسے کرونا وائرس ہم سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہو
کوئی سوغات وفا دے کے چلا جاؤں
تجھ کو جینے کی ادا دے کے چلا جاؤں

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند