4 130

محدود حج کا دانشمندانہ فیصلہ

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو مسلمانوں کیلئے حرمین شریفین کے دروازے بھی بند ہوگئے، اس سال سے قبل رمضان المبارک میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان سفر کرتے تھے لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سعودی حکومت نے مشکل فیصلے کئے جس کے باعث رمضان المبارک میں مسلمان عمرہ کی ادائیگی سے محروم رہے، اسی طرح ہر سال حج کا سیزن آنے سے کئی ماہ قبل ہی حج کی تیاریاں شروع کر دی جاتی تھیں کیونکہ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں بلامبالغہ 25لاکھ کے قریب لوگ شرکت کرتے ہیں اور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، ہزاروں سعودی اہلکاروں کی حج تعیناتی اور خدمات کیساتھ ساتھ ٹریول ایجنسیوں، ہوٹلز اور ٹرانسپورٹس کے کاروبار سے منسلک لاکھوں لوگوں کے روزگار کا انحصار حج کے سیزن پر ہوتا ہے جس میں معمولی مزدور سے لیکر بڑے تاجر تک اپنے سال بھر کی کمائی کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہیں۔ امسال بھی حج سے چند ماہ قبل تک حج کی تیاری اس اُمید کیساتھ کی گئی کہ موسم حج کے قریب وباء ختم ہو چکی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ حج کا فیصلہ اور اعلان کرنے میں سعودی حکومت نے آخری لمحوں تک انتظار بھی کیا، حرمین شریفین کی خالی جگہوں کو دیکھ کر مسلمانوں کے دل پارہ پارہ ہوتے تھے اسلئے مسلم امہ کی جانب سے سعودی حکومت کو مشورے دئیے گئے جن میں کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ حج کو ساقط نہ کیا جائے، بھلے مخصوص تعداد کو ہی اجازت دی جائے لیکن حج کی ادائیگی بہرصورت کی جائے سو اب جبکہ محض گنتی کے چند دن باقی رہ گئے ہیں تو سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے 160ممالک کے شہریوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد رواں برس حج کیلئے ناموں کو حتمی شکل دیدی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر حرمین شریفین کے بیان میں کہا گیا کہ وزارت حج نے مملکت میں مقیم 160ممالک کے شہریوں کو حج کیلئے منتخب کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام خوش قسمت اُمیدواروں کو ایس ایم ایس کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے۔ سعودی وزارت حج وعمرہ کا کہنا تھا کہ درخواستوں کو عازمین کے تحفظ اور اچھی صحت کو یقینی بنانے کیلئے اعلیٰ معیار کے مطابق جانچا گیا۔ حج کیلئے درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 10جولائی مقرر کی گئی تھی اور اچھی صحت کو بنیادی نکتہ قرار دیا گیا تھا۔ حج کی سعادت حاصل کرنے والے عازمین میں 70فیصد کا تعلق بیرون ممالک سے ہوگا جبکہ 30فیصد سعودی عرب کے ہی شہری ہوں گے۔ حاجیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 28ذیقعد سے 12ذی الحج تک کسی نے بغیر اجازت نامے کے منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں حج کے مقامات میں داخلے کی کوشش کی اس پر 10ہزار سعودی ریال جرمانہ ہوگا۔ وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ مقدس مقامات کی طرف جانے والے راستوں پر سیکورٹی اہلکار تعینات کئے جائیں گے تاکہ قانون توڑنے والے کو روک کر ان پر جرمانے کو یقینی بنایا جائے۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت نے 24جون کو اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث عازمین کی تعداد کو محدود رکھتے ہوئے صرف سعودی عرب میں مقیم غیرملکیوں کو حج کی اجازت دی جائے گی۔ وزارت حج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ہجوم اور لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہونے سے کورونا کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا ہے کہ رواں برس حج محدود عازمین کیساتھ ہوگی۔ رواں برس کورونا وائرس کے باعث سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک سے حج کیلئے کوئی نہیں آسکے گا۔
گزشتہ برسوں کی طرح اس برس حج کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جہاں کاروباری طبقے کو نقصان ہوا ہے اس کیساتھ ہی سعودی حکومت کو سب سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا ہے، ایک اندازے کے مطابق سعودی حکومت کو سالانہ ایک سو ایک ارب ریال کی کم آمدن کا سامنا ہے لیکن سعودی حکومت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے مالی نقصان کو برداشت کیا ہے کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حج کے موقع پر کورونا کی شدت میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو سکتا ہے، سعودی حکومت کی جانب سے محدود پیمانے پر حج کا فیصلہ اس حوالے سے بھی قابل تحسین ہے کہ اگر خدانخواستہ حج کے موقع پر کورونا میں اضافہ ہوتا تو سعودی حکومت کیساتھ ساتھ پوری مسلم امہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا، سعودی حکومت کے بروقت اور دانشمندانہ فیصلے سے اس تنقید کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔
(باقی صفحہ7)

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات