4 34

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت۔۔

انسان کو زندگی گزارنے کیلئے جہاں بہت سی ذمہ داریاں سرانجام دینا پڑتی ہیں وہاں کوئی نہ کوئی مشغلہ بھی اپنانا پڑتا ہے کوئی شوق بھی پالنا پڑتا ہے۔ بچپن میں ہم ٹکٹیں اور سکے جمع کیا کرتے تھے اسی طرح کہانیوں کی کتابیں پڑھنا بس یہی دوچار مشاغل تھے، پھر ہوا یوں کہ وقت کی دھول میں ٹکٹ اور سکے کہیں بہت پیچھے رہ گئے لیکن کتابوں کیساتھ دوستی کا ایسا رشتہ قائم ہوا جو ابھی تک برقرار ہے۔ کہتے ہیں کہ پڑھنے اور لکھنے کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پڑھنے والے کا دل چاہتا ہے کہ اب کچھ لکھا بھی جائے سو کالم نگاری شروع ہوگئی، اب یہی ہمارا مشغلہ ہے، نظریں ہر وقت ادھر ادھر منڈلاتی رہتی ہیں کہ کوئی اچھا موضوع ہاتھ لگے تو اس پر خامہ فرسائی کی جائے۔ دل کے پھپھولے جلائے جائیں! اگرچہ کالم نگاری پل صراط کا سفر ہے بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ آپ کے لکھے ہوئے سے سب قاری اتفاق کریں، سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے، اس لئے کسی کالم نگار کیلئے سب کو بیک وقت خوش کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اسے یہ کوشش بھی نہیں کرنی چاہئے! اگر دوچار لوگ آپ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اختلاف کا حق بھی رکھتے ہیں، نہ صرف حق رکھتے ہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر آپ کی خبر بھی لیتے ہیں! ویسے آپس کی بات ہے یہ قلم ہے بڑی ظالم چیز جب یہ سرپٹ گھوڑے کی طرح بھاگنا شروع کر دیتا ہے تو سوار کیلئے اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے! ہر وقت تنقید، ہر وقت نکتہ چینی، دوسروں کے خیالات بیانات پر مرچ مصالحہ لگا کر تبصرے کرنا، دانشوری بگھارنا، علمیت جھاڑنا، اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اور دوسروں کو طفل مکتب! یہ لکھاریوں کے چونچلے ہیں قلم ان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اس لئے جو جی چاہے لکھتے چلے جاتے ہیں اور لکھاری ہونے کے زعم میں یہ بھول جاتے ہیں کہ قلم کی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، یہ کانٹوں کا سفر ہے اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، اپنے اردگرد بکھرے ہوئے انسانوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ان کے دل نازک کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ دل نازک کے حوالے سے ہمارے شاعروں نے بہت کچھ لکھا ہے انہوں نے اپنے دل کی حالتیں بیان کرتے ہوئے دیوان کے دیوان سیاہ کر دئیے ہیں:
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
حضرت دل کو صاف شفاف آئینہ قرار دیا جاتا رہا ہے، اسے عموماً کانچ کے ٹکڑے کیساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جو ذرا سی چوٹ لگنے سے کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صوفیاء کے یہاں بھی دل کو بڑی اہمیت حاصل ہے بلکہ صوفیانہ مکاتب فکر میں تو دل کو عقل پر برتری حاصل ہے۔
اچھا ہے دل کیساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
صوفیاء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ سب سے اچھا کام عجز ونیاز ہے اور دوسرے درجے پر دل آزاری سے بچنا اور بردباری ہے۔ انسان کے دل کا خیال رکھنا انسان کیلئے خالق کائنات کی قربت کا سبب بن جایا کرتا ہے! بات چلی تھی کالم نگاری اور دل آزاری کے حوالے سے اب یہ خیال آتا ہے کہ صرف کالم نگار پر ہی کیا موقوف؟ دوسروں کا خیال رکھنا تو انسانیت کی معراج ہے اور یہ ہم سب کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے کہ اپنے آس پاس موجود لوگوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جائے! جب اس حوالے سے اپنے گرد وپیش پر نظر پڑتی ہے تو کوئی اچھی تصویر نہیں بن پاتی، ہمارے معاشرتی روئیے ہمارے قول وفعل کے تضادات کی چغلی کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ہدیات کی گئی ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ہم سے نالاں ہیں۔ ٹی وی کا شور ہو، ہمارا ذوق موسیقی ہو، گھر میں شادی کا ہنگامہ ہو یا پھر ہمارا اپنا شور! اس وقت ہمیں اپنا بیمار ہمسایہ بھول جاتا ہے، ہمارے شور کی وجہ سے ہمارے پڑوس میں رہنے والا طالب علم دلجمعی سے مطالعہ نہیں کرسکتا، اسی طرح مسجد کے لاؤڈ سپیکر کا بے تحاشہ اور مسلسل استعمال آس پاس رہنے والوں کیلئے باعث اذیت بن جاتا ہے! آج کل بارشوں کا موسم ہے بجلی کی آنکھ مچولی تواتر کیساتھ جاری ہے، واپڈا والے تو دل آزاری کے حوالے سے پہلے ہی بہت بدنام ہیں لیکن اب ان کی دیکھا دیکھی سوئی گیس والوں نے بھی دل دکھانے کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ بارشوں نے ایک مرتبہ پھر دسمبر کی یاد دلا دی ہے اب ایسے میں اگر سوئی گیس بھی داغ مفارقت دے جائے تو پھر گلہ تو بنتا ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کی اٹکھیلیاں اب صارفین کیلئے ناقابل برداشت ہوتی چلی جارہی ہیں:
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں! اور پھر مہینے کے اختتام پر جب صارفین کا پالا ہیوی ویٹ قسم کے بلوں سے پڑتا ہے تو انہیں چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سفید پوش حضرات کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے۔ دوستو! بات چلی تھی اہل قلم کی لاپرواہیوں اور پھر پڑوسیوں کے حقوق سے ہوتی ہوئی آخر میں بجلی اور سوئی گیس کے بلوں تک آپہنچی! بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا قبلہ درست کیا جائے! ابن خلدون کا کہنا ہے کہ عمل ومحنت کے بغیر تو ہم قدرتی ذرائع سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے! وطن عزیز تو قدرتی ذرائع سے مالامال ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے مسائل سے باہر نکلتے ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات