2 89

کرونا سے بچاؤ ، کیا اقدامات ضروری ہیں

وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ یہ محاورہ موجودہ صورتحال پر بالکل صادق آتا ہے۔ کرونا وائرس پوری دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ہم میں سے کئی لوگ اس صورتحال میں پاکستان میں صحت کے نظام کا بھانڈا پھوٹنے سے ڈر رہے ہیں۔ عام طور پر پایا جانے والا یہ تاثرقطعی غلط ہے کہ کرونا وائرس معمول کے زکام جیسی ہی کوئی بیماری ہے یا یہ صرف ضعیف لوگوں، چھوٹے بچوں یا انہی لوگوں کا متاثر کرتا ہے جن کی قوت مدافعت کم ہو۔ اس وائرس سے تمام عمر کے افراد میں شرح اموات کا خطرہ پانچ سے بیس فیصد تک شدید ہے۔ اس تمام صورتحال میں پریشان یا بے چین ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا مگر ضروری ہے کہ ہم صورتحال کی سنجیدگی کو اچھے سے سمجھیں۔ ہم میں سے کچھ اس بات پر قائل ہیں کہ یہ وائرس بڑی تعداد میں ہمارے شہروں کے اند رپھیل چکا ہے البتہ اس کی مناسب رپورٹنگ نہ ہونے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے کم ٹیسٹ ہی بہت کم ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور کے بیشتر اسپتالوں میں فی الوقت کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ایک بھی ٹیسٹنگ کٹ دستیاب نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جنوبی کوریا میں، جہاں رواں سال 20جنوری کواس وبا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھامیں اب اس وائرس کی تشخیص کے لیے ایک تحریک شروع کر دی گئی ہے۔ یہاں حکومت کی جانب سے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے کرونا ٹیسٹ کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ یہاں لوگ اپنی گاڑی میں بیٹھے صحت مرکز پہنچتے ہیں، وہاں ایک تشخیصی ماہر مکمل حفاظتی لباس میں فرد کاگاڑی کے اندر سے ہی نمونہ لیتا ہے اور وہ فرد چلا جاتا ہے۔ س ٹیسٹ کی رپورٹ اگلے دن دے دی جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے تمام عمل میں دس منٹ لگتے ہیں اور یہ مکمل طور پر مفت ہے۔ہمارے ہاں وسائل کی شدید کمی ہے اور اگلے ہفتے میں یہ کمی دور ہونا تو ناممکن ٹھہرا ۔ ہمارے پاس اس صدی کی سب سے بڑی وباکے نمٹنے کے لیے دو ہی مصدقہ طریقے ہیں ۔ تشخیص اور سماجی تنہائی ۔ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے چین نے’ فیور کلینکس ‘کو دوبارہ فعال کرنے جیسا اہم اقدام لیا۔ یہ وہی کلینکس تھے جو انہوں نے سال 2003 میں سارس کی وباء سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے تھے۔ اگر کسی میں زکام یا بخار جیسی علامات ظاہر ہوتیں تو ایسے میں وہ اسپتال نہیں جاتا کہ وہاں یہ خطرہ موجود ہے کہ آپ باقیوں کو بھی بیمار کر دیں گے،یہاں لوگ ان علامات کے ظاہر ہونے کے بعد ان مخصوص کلیکنکس کا رخ کرتے ہیں جہاں ماہرین انہیں سب سے الگ کر کے ٹیسٹ لیتے ہیں اور نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں علاج معالجہ کرتے تھے۔ پاکستان کو بھی ایسے فیور کلینکس یا فیورٹینٹس قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ہر شہر میں ایک مرکزی فیور اسپتال مختص کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ متاثرہ مریضوں کو وہاں شفٹ کیا جا سکے ۔اس کے علاوہ ہمیں ایک دوجے سے مناسب جسمانی فاصلہ رکھنے کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ امریکی ڈاکٹر جین گنٹر نے اپنی کتاب ایٹلانٹک میں کہا ہے کہ ہمیں ایسی صورتحال میں زیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھرو ں میں ہی گزارنا چاہیے اورباہر نکلنے کی صورت ہمیں ایک دوسرے سے کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا چاہیے۔ اس کے پیچھے کار فرما وجہ یہ ہے کہ آپ جس قدر فاصلہ اور میل ملاپ کم رکھیں گے اتنا ہی آپ کے وائرس کے بچے رہنے کے امکانات روشن رہیں گے۔ حکومت نے اس پر عملدرامد شروع کرادیا ہے اور تمام عوامی اجتماعات ، ثقافتی تہوار اور تعلیمی اداروں کے کھلے رہنے پر چار سے چھ ہفتوں کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں مہنگے اور غیر مؤثر ہاتھ صاف کرنے والے سینیٹائزر کی بجائے سستے اور جراثیم کش صابن کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی ملاقاتوں میں جسمانی لمس سے بچ کر رہنا ، مصافحہ کرنے اور بغل گیر ہونے سے پرہیز کرنانہایت ضروری ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ذرائع ابلاغ پر بارہا کھانسنے کے آداب بھی لوگوں کو سکھانا ضروری ہیں تا کہ وہ جان سکیں کہ کھانسنے سے پہلے انہیں اپنا منہ اپنی کہنی سے ڈھانپنے ہیں۔ چینی صوبے ووہان کے فیور کلینکس نے اس مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے مشہور طبی جریدے میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے اور پاکستان کی ٹاسک فورس برائے تدارک کرونا وائرس کو اس سے خوب استفادہ کرنا چاہیے تا کہ اس وباء کے خلاف ایک قومی سطح کا رد عمل تشکیل دینے میں مدد مل سکے۔ ایسی کچھ دوائیں بھی موجود ہیں جن کے استعمال کے بارے میںحکومت کوسوچنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا کہ یہ وائرس سب سے زیادہ نقصان مدافعاتی نظام میں”سیٹوکین سٹارم” کو شروع کر کے کرتا ہے جس کے بعد انسانی جسم کے مدافعاتی خلیے خود ایک ایسے کیمیکلزکو جنم دیتے ہیں جو دل اور پھیپڑوں کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیں دوا سازوں سے بھی شدید بیمار مریضوں کے لیے خصوصی ادویات بنانے کے لیے بات چیت کرنا چاہیے تاکہ کم از ان لوگوں تک یہ دوائیں بروقت پہنچنا شروع ہو سکیں۔ ہم جس صورتحال میں گھرے ہیں اس میں صوبوں اور وفاق کے مابین مربوط اور مستقل رابطے اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے جرثومے کے رحم و کرم پر ہیں جو اس قدر چھوٹا ہے کہ خرد بین سے میں بھی نظر نہ آئے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا یہی حل ہے کہ ہم جلد از جلد اس کے علاج کے لیے ملکی سطح پر بھی جدت سے ہم آہنگ اقدامات لیں اور سماجی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''