2 127

کرونا وائرس اور توانائی کا شعبہ

حکومت اس وقت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کو روکنے کیلئے تدبیریں تلاش کر رہی ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی غریب عوام تک سستی گیس کی فراہمی کیلئے آواز اُٹھاتے رہے ہیں۔ آئیے ہم عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں کے پاکستان کے توانائی کے شعبے پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
کرونا وائرس کے آنے سے پہلے ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔ آغاز میں تو دنیا میں تیل کے سب سے بڑے پیداواری دو ملکوں، روس اور سعودی عرب کے مابین تیل کی قیمتوں کے حوالے سے جنگ چل رہی تھی اور اس کے بعد کرونا وائرس کے آنے سے ویسے ہی تیل کی مانگ میں کمی واقع ہوگئی۔ پاکستان کے معاشی شرح نمو بھی تین فیصد رہنے کا امکان ہے جس سے اس تمام صورتحال میں مزید دباؤ کی کیفیت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال کے آخر تک پاکستان میں تیل کی مانگ میں 35فیصد تک کمی دیکھنے میں آئے گی۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ہوتی دیکھیں اور عالمی منڈی میں فی بیرل قیمت دس ڈالر پر گر جائے۔ ایسا ہونا عالمی معیشت اور توانائی کے شعبے کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے کہ عام طور پر فی بیرل کی اوسط قیمت چالیس ڈالر کے لگ بھگ ہی رہے تو موافق سمجھی جاتی ہے۔ البتہ اس کمی کے پاکستان کی معیشت اور فلاح وبہبود پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت نے پہلے ہی پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں پندرہ روپے کمی کا اعلان کر دیا ہے اور اگر عالمی منڈی میں اس کی قیمتیں یونہی کم ہوتی رہیں تو آنے والے دنوں میں ہمارے ہاں بھی اس میں مزید کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ روپوں سے زیادہ کمی بھی کر سکتی ہے مگر ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ حکومت کو بھی اس وقت اضافہ آمدن کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال نے ہماری معیشت کو نقصان پہنچایا ہے اور حکومت کی آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت نے جتنے بھی ریلیف پروگرام ترتیب دئیے ہیں، انہیں چلتا رکھنے کیلئے اسے اضافی پیسے کی ضرورت ہوگی۔
مارچ کے پورے مہینے کے دوران بھارت میں تیل کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی بلکہ وہاں تو حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ٹیکس میں آٹھ بھارتی روپوں کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ اگرچہ بھارت میں آنے والے وقت میں تیل کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی البتہ ہم اس بات سے پہلے بھی اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں بھارت کی نسبت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کافی کم ہیں۔
تیل کیساتھ ساتھ گیس کی قیمتیں بھی تنزلی کا شکار ہیں۔ اگرچہ قطر ایل این جی نے اپنی قیمتیں دس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر برقرار رکھی ہیں مگر امید ہے کہ یہ قیمتیں چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک آگریں گی البتہ دوسری جانب اس کے کم استعمال کے باعث ایل این جی کی ہیڈلاگت میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔
ہمارے ہاں اس شعبے میں سب سے زیادہ آمدن او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر حصص حکومت کی ملکیت ہیں۔ گزشتہ برس او جی ڈی سی ایل نے 60 سے65 ڈالر فی بیرل کی قیمت کیساتھ 118 ارب روپے کا منافع کمایا اور چالیس ارب کے قریب محصولات کی ادائیگی کی۔ اسی طرح پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے بھی گزشتہ برس 61.6ارب ڈالر کے منافع کیساتھ 23ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کئے۔ یہ دو اور ان کی طرح کی کئی چھوٹی کمپنیاں خسارے کا شکار ہو سکتی ہیں جس کے باعث حکومت کو محصولات اور ان سے پیدا ہونے والی آمدن کی مد میں ملنے والے تقریباً 250 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ابھی سے خام تیل کی قیمت طے کرنے کے فارمولے پر نظرثانی کرے جو اس وقت برینٹ کروڈ آئل کی قیمت کے لحاظ سے طے کی جاتی ہے جبکہ اس کی مقامی لاگت ہمیں تیس ڈالر فی بیرل کے قریب پڑسکتی ہے۔ اگر تیل کی قیمتوں میں مزید کمی آئی تو ممکن ہے کہ حکومت کو توازن برقرار رکھنے کیلئے اس کی فلور پرائس یعنی کم ازکم لازم قیمت مقرر کرنا پڑ جائے جیسا کہ اس سے پہلے گیس کی قیمتوں کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ قیمت متعین کی جا تی رہی ہے۔ ہماری درآمدات کا حجم بھی تقریباً 12سے 13ارب ڈالر کے قریب تھا جو اب تیس فیصد تک گھٹ جانے کاخطرہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں تیس بیرل اوسط کی کمی کے باعث ہماری تیل کی درآمدات کی لاگت میں 7 سے 8ارب ڈالر کی بچت ہوگی جو حالیہ تاریخ میں اس سے کبھی پہلے نہیں ہوا۔ مزید برآں ہمیں ایل این جی کی مد میں بھی اضافی ایک ارب ڈالر کی بچت متوقع ہے۔ مجموعی طور پر بات کی جائے تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے البتہ ہمارے ہاں تیل کی مقامی کمپنیوں کو شاید اپنی آمدن اور منافع میں کچھ کمی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ اس صورتحال سے حکومت کیلئے عوامی فلاح وبہبود کی خاطر توانائی کے شعبے میں بھی ٹیرف کم کرنے کا موقع پیدا ہوگا۔ کرونا کے اثرات کو مکمل طور پر رفع ہونے میں شاید ایک سال کا عرصہ لگ جائے البتہ اس دوران تیل کی قیمتیں اپنی کم ترین سطح چھونے کے بعد دوبارہ معمول کی طرف آنے کا سفر رفتہ رفتہ شروع کر دینگی۔
(بشکریہ دی نیوز، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات