tanveer ahmad 10

اپنی جان کی حفاظت کیجئے

حضرت انسان کی کہانی بڑی دلچسپ بھی ہے، عجیب بھی اور دل دکھانے والی بھی! یہ نامعلوم زمانوں سے سفر میں ہے اس پر اچھے برے دور آتے رہے ہیں۔ ایک سوال صبح سے ذہن میں بار بار اُٹھ رہا ہے کہ کیا انسان نے اپنی تاریخ سے کچھ سیکھا ہے؟ اس پر سوچتے سوچتے دماغ اُلجھ کر رہ گیا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کائنات کا شاہکار اس دنیا میں اپنے حصے کا کردار کس طرح ادا کر رہا ہے؟ اگر انسان سیکھنا چاہے تو اسے زندگی بھر سیکھنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور یہ تو انسان کی ایک لمبے عرصے پر محیط تاریخ ہے کہ وہ مسلسل سیکھتا رہا ہے، اسے فطرت سکھاتی رہی ہے، اسے اس کی ضرورتیں سکھاتی رہی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ حیات انسانی کے ارتقاء کیساتھ ساتھ انسانی فہم میں اضافہ ہوتا رہا ہے! غار سے اپنا سفر شروع کرنے والا انسان پتھر کے زمانے کا وحشی انسان آج تہذیب جدید کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا رہا ہے اور یہ سب کچھ صرف اس کے سیکھتے رہنے کی صلاحیت ہی سے ممکن ہوا ہے، خالق کائنات کی ودیعت کردہ بہت سی صلاحیتوں میں سے یہ سیکھتے رہنے کی صلاحیت ہی کا اعجاز ہے کہ آج کائنات کو انسان نے تسخیر کر رکھا ہے، فاصلے اس کے سامنے سمٹ کر رہ گئے ہیں، وہ پوری دنیا کیساتھ ہر لمحہ رابطے میں ہے، معلومات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس سے وہ ہر لمحہ مستفید ہو رہا ہے اس کے اندر موجود تجسس نے اسے سیکھنے سکھانے کی ترغیب دلائی ہے، اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا کو جاننے کی جبلی خواہش نے انسانی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، انسانی فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، تسخیر کائنات کیساتھ ساتھ یہ ملک بھی فتح کرتا رہا اور آزاد اقوام کو غلام بھی بناتا رہا ہے، یہ فتح کے پھریرے اُڑاتا مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن اتنی بہت ساری کامیابیوں کے باوجود لاتعداد چیزوں کو دریافت کرنے والا انسان ابھی تک اپنے آپ کو دریافت نہیں کرسکا؟ سمندروں کی تہوں اور عمیق غاروں کا کھوج لگانے والا انسان ابھی تک اپنا کھوج نہیں لگا سکا؟ یہ اپنے آپ کو نہیں پہچان سکا؟ اپنے من میں غوطہ نہیں لگا سکا؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے دل دکھا دینے والے سوال حضرت انسان کی کامیابیوں کو مشکوک کر دیتے ہیں۔ اتنے علوم اور حقائق سے باخبری کے باوجود آج بھی گورا کالے سے نفرت کرتا ہے، امریکہ میں جہاں کالوں کی آبادی بڑھ جاتی ہے گورے وہاں سے اپنے گھر اور جائیدادیں بیچ کر چلے جاتے ہیں، انہیں کالوں کیساتھ رہنا پسند نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ میں کالوں کے حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ اصلاحات ہوئی ہیں بہت سے پرانے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے کالوں کو سہولت دینے کیلئے بہت سے نئے قوانین بنائے گئے ہیں امریکہ میں کالا صدر بھی رہا ہے۔
آج کا نام نہاد ترقی یافتہ اور مہذب انسان عقل وشعور رکھنے کے ان تمام دعوؤں کے باوجود اپنے جیسے انسانوں کو دکھ پہنچا رہا ہے، آج ساری دنیا کے انسانوں کو پھر ایک امتحان کا سامنا ہے، یہ کرونا وبا کے دنوں میں جی رہے ہیں، یقینا یہ تاریخ کا ایک مشکل اور نازک دور ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کی جائے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کی جائیں لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے، ذخیرہ اندوز آج بھی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہے، کرونا وبا کا بہانہ بنا کر مصنوعی مہنگائی پیدا کی جارہی ہے، نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اب احتجاج کیلئے پر تول رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں انہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن دوسری طرف دیکھئے تو چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی زندگی کا سوال ہے؟ حکومت وبا کے ان دنوں میں سکول کھولنے کا خطرہ کیسے مول لے سکتی ہے؟ بازار کھولے جاچکے ہیں، ایک دو دنوں تک پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھول دی جائے گی، اندرون ملک پروازیں بحال کرنے کا اعلان بھی ہوچکا ہے، کرونا کیسز میں اگرچہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اموات میں کچھ کمی آئی ہے، بقول وزیراعظم اب ہمیں وائرس کیساتھ گزارا کرنا ہوگا جن ممالک میں روزانہ سینکڑوں لوگ مر رہے ہیں وہاں ٹرانسپورٹ بند نہیں ہے تو ہم نے کیوں بند کر دی ہے؟ بات تو درست ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ وہاں لوگ ماسک اور دستانے پہن کر گھروں سے انتہائی اہم ضرورت کے تحت نکلتے ہیں جبکہ یہاں صورتحال بہت مختلف ہے لوگ غیرضروری خریداریوں کیلئے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں، بازاروں میں لوگوں کا اتنا رش ہے کہ خدا کی پناہ! ہمارا تو یہ خیال ہے کہ کرونا ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا نقصان ہمیں اپنے روئیے پہنچاتے ہیں۔ بازار مجبوری کے تحت کھولے گئے ہیں لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اب کرونا بھی پرانا ہوگیا ہے، ہم پر نظرکرم نہیںکرے گا یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، اگر اس کی اصل صورت دیکھنی ہو تو کسی کرونا کے مریض کی حالت زار دیکھئے، شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے ڈاکٹروں کا استعفیٰ کیا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بغیر مناسب کٹس اور دوسرے ساز وسامان کے کرونا کے مریضوں کا علاج نہیں کیا جاسکتا، یہ تو اپنی زندگی داؤ پر لگانے والی بات ہے۔ کالم کے آخر میں اپنے بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ بازار تو کھل گئے ہیں لاک ڈاؤن بھی ختم ہو چکا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھولی جارہی ہے، ہوائی پروازیں بھی شروع ہو جائیں گی لیکن آپ احتیاط کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں، انسانی جان اللہ کریم کا بہت بڑا انعام ہے اس کی حفاظت کیجئے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی