khalid shoail 1

جستجو ایک بکرے کی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
بکرے کی جستجو تو اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب صاحب خانہ خود قربانی کا بکرا بننے کیلئے ”اخلاقی” طور پر خود کو تیارکر لیتا ہے۔ قربانی بکرے کی ہوتی ہے اور ساتھ صاحب خانہ بھی کچھ کچھ قربان ہوتا جاتا ہے، یہ قربان ”یاقربان” والا قربان نہیں ہوتا بلکہ سچ مچ کا قربان ہوتا ہے۔ ہم جب لاء کی کلاس میں تھے تو ہمیں پہلی کلاسوں میں یہ سکھایا گیا تھا کہ ”He includes She”یعنی جہاں ”ہی” کا لفظ آتا ہے وہاں” شی” بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ نہ آسکی اسی لئے لاء کے مضمون میں ”لالا” ہی رہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں جہاں جہاں بکرے کا لفظ آئے وہاں وہاں ”سہولتاً” گائے، بھینس، بیل، سانڈ، اونٹ، بھیڑ، دنبے، وغیرہ وغیرہ مراد لئے جاسکتے ہیں۔ بات بہرحال بکرے کی ہو رہی تھی۔ ہر گھر میں بکرے کی ہی باتیں، بکرا بڑا ہو، بکرا خوبصورت ہو، بکرا ہینڈسم ہو، بکرا مودب ہو، بکرا تعلیم یافتہ ہو (یعنی باتیں سمجھ سکے) یہ تمام صلاحیتیں گھر کے سب افراد اُس بکرے میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو بکرا عید کیلئے گھر میں آنے والا ہے کیونکہ اسی بکرے کی ان ”بے پناہ” صلاحیتیوں نے تو بعدازاں گھر والوں کی ناک میں محلے والوں اور رشتہ داروں میں چند انچ کی اونچائی میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ ناک بھی بڑی عجیب چیز ہے جب تک اونچی نہ ہوجائے سکون کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مگر محلے اور رشتہ داروں اور دوستوں ہی میں ناک کو کیوں اونچا کیا جاتا ہے حالانکہ ان سب کو ہماری اوریجنل ناک کا حدوداربعہ مکمل طور پر ازبر ہوتا ہے پھر یہ سعی لاحاصل کیوں؟ سوال یہ ہے کہ ناک ہی کیوں، کان یا آنکھ بھی تو چہرے پر لگے ہوتے ہیں۔ انہیں کیوں اونچا کرنے کی خواہش دل میں جنم نہیں لیتی۔ پھر صرف ناک کا محاورہ ہی کیوں بنایا گیا ورنہ کم ازکم آنکھ یا کان کھلے رکھنے یا پھر بند رکھنے کے محاورے تو بن ہی سکتے تھے۔ بہرحال قربانی کے مقصد کو کوئی نہیں دیکھتا کہ جس ذات کی خوشنودی کیلئے یہ قربانی کی جاتی ہے وہ ذات ہم سے چاہتی کیا ہے۔ بس ہم نے ایک تہوار بنا رکھا ہے، وہ ذات تو اس قربانی سے اپنے بندے کا خلوص، نیت، خدا سے محبت، انسانوں میں ایثار دیکھنا چاہتی ہے۔ عیدالالضحیٰ پر گھروں، محلوں، بازاروں اور دفتروں میں موضوع بحث بکرے، بھینس، گائے، دنبے ہی ہوتے ہیں۔ قربانی کرنے کی خواہش کس کے دل میں نہیں ہوتی۔ مگر مہنگائی کے اس دور میں کہ جہاں پیٹرول نے آگ لگا دی ہے، سبزی، دالیں چاول، گھی، دودھ، گوشت، آٹا اور ہر چیز جو استعمال میںآتی ہے اسے مہنگائی کی آگ نے اپنی زد میں لپیٹ رکھا ہے۔ اس صورت میں بکرے اور بکرے والوں کے نخرے کیا ہوں گے یہ تو منڈیوں میں جاکر ہی معلوم ہوگا۔ بکروں کے عاشق بکروں کے دانت دیکھنے کے بہانے انہیں بس چھو ہی سکیں گے۔ انہیں خریدنا اور گھر لے جانا خواب ہی ہوگا۔ کتنی آہیں ہوں گی جو ان بکرا عاشقوں کے سینے سے نکلیں گی۔ اُف اللہ کیسی کیفیت ہوگی جیسے مجنوں لیلیٰ کے فراق میں تڑپتے ہوں ویسے ہی ہمیں بھی کسی لیلیٰ (پنجابی میں بکرے کا نام) کیلئے تڑپنا پڑے گا۔ بکرے کی جھیل جیسی آنکھیں دل کے آرپار ہوجائیں گی اور ہم اس وقت کو یاد کریں گے جب مہنگائی نہ ہوا کرتی تھی یا کم کم ہوا کرتی تھی اور بکرے کا حصول آسان نہیں تو دشوار بھی نہ تھا۔ کیسے کیسے وجہیہ بکروں کی رسی تھامے گھروں کو آیا کرتے تھے۔ محلے میں یونہی بکرے کو لئے گھوم جایا کرتے تھے۔ لوگ پوچھتے کہ میاں کتنے میں آیا تو ہم کہہ دیتے کہ شوق کا کوئی مول نہیں بھائی۔ گھر میں بچے ہم سے محبت کرنے لگتے اور خاتون عزت کرنا شروع کر دیتیں۔ بے شک ایک بکرا آدمی کو کتنی عزتیں بخش دیتا ہے۔ واقعی بکرا بہت بڑی نعمت ہے۔ اب یہ سب باتیں یاد کر کر کے ہم اپنا اور اپنے جیسے محبانِ بکرا کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ گھر والے تو ان سب ”فلسفیانہ” باتوں کو نہ سمجھنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی انکار کی تاب وتب۔ بکرا تو ہر حال میں خریدنا ہی ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو۔ آخر سماج میں تھوڑی بہت عزت اب بھی باقی رہ گئی ہے۔ اس عزت کے صدقے کچھ تو کرنا ہی ہے۔ کاش پچھلی بقرعید پر کمیٹی ڈال لیتے تو یوں ہمیں دربدر خاورے پہ سر گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کسی حسین اور سستے بکرے کی تلاش میں مارامارا نہ پھرنا پڑتا۔ کاش کہ بکرے انسٹالمنٹ پر ہی مل جایا کرتے۔ بنک والے موبائل فون تک قسطوں پر دینے کی سکیمیں بناتے ہیں لیکن کسی شریف بنک والے کو یہ نہ سوجھی کہ بہت سے بکرے خرید کر قسطوں پر اپنے کلائنٹس کو دے دیتے۔ بنک والوں کو بزنس بھی ہو جاتا اور ہم جیسے عاشقان بکرا کی دعائیں بھی سمیٹ لیتے اور اپنی بنکوں کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے دیتے۔ ایک بہت ہی ذہین دوست نے ایک بہت مناسب مشورہ دیا ہے کہ ایک بکرا کرائے پر لے لیں گے دو چار دن گھر میں رکھ کر عید کے دن بازار سے تیار گوشت لاکر گھروالوں کو کھلا دیں گے اور سسرالیوں میں بانٹ لیں گے۔ مجھے ان کا یہ مشورہ بہت اچھا لگا ہے لیکن نہ ہی انہیں اور نہ مجھے علم ہے کہ کرائے کے بکرے کہاں ملتے ہیں؟

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے