2 244

بے جا تنقید

تحریک پا کستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کئی اقسام کے نعرے محلہ در محلہ گونجتے رہے ہیں نعروں پر ہی کیا اکتفا بعض جملے اور فلمی مکالمے بھی بام شہر ت پر پہنچ جا یا کرتے تھے ۔جیسے کہ جب چیو نٹی کی موت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں پھر یہ ہی جملے ضرب المثل، محاورہ اور چڑ بھی بن جایا کرتے ہیں ، یہ کوئی پچاس ساٹھ سال پہلے بات ہے بعض لوگ تکیہ کلا م کا شکا ر ہوتے تھے ان کی زبان پر کوئی نہ کوئی لفظ یا جملہ رہا کرتا تھا اس دور میں یہ بات اب عنقا ہوگئی ہے ، پچھلے دنو ں ایک صاحب فرس خان سے ملا قات ہوئی وہ ہر بات کا نتیجہ یہ کہہ کرنکالتے کہ بس اور کچھ تو نہیں دھنیہ ہو گیا گویا وہ ہر بات کا دھنیہ کر دیتے ہیں ، تکیہ کلا م کا رواج مقبول فلمی دور میں بھی بہت ہو اکر تا تھا جس میںبعض جملے انتہائی بامعنی ہو ا کرتے تھے اور بعض مہمل ہوتے ہو ئے بھی زد عا م ہو جاتے تھے مثلا ًفلم سرفروش میں ڈاکو شہزادی کے محل میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو اس اثناء میں فجر کی اذان ہوجا تی ہے وہ ڈکیتی کی جگہ پرکھڑے ہوکر نما ز فجر ادا کرنے لگتاہے شہزادی کو بڑی حیر انی ہو تی ہے وہ استفسار کر تی ہے کہ یہ کیا ایک طرف تم ڈاکے ڈالتے ہو اور دوسری طرف عبادت بھی کرتے ہو تو ڈاکو جواب دیتا ہے کہ ڈاکا ڈالنا میرا پیشہ ہے اور عبادت کرنا میرا ایما ن ہے ، یہ فلمی مکالمہ ایک زندہ جا وید ضرب المثل بن گیا اورآج بھی مقبول ہے ، بلکہ حقیقت بھی یہی ہے اس دور کی سچائی بھی ہے ۔ممتاز شاعر نخشب نے کئی کامیاب غنائیہ فلمیں بنائی تھیں ان میں سے ایک فلم تھی زندگی یا طوفان اس میں ایک مکالمہ تھا کہ ایک جھوٹے نو اب ہر بات پر کہتے تھے کہ جب شہ پڑتی ہے تو پیادہ کو آگے کر دیا جا تا ہے ، اس مکالمہ میں بات توبہت گہر ی کی گئی تھی، ایسے تکیہ کلا م ، محاورے ، ضرب المثل وغیر ہ بہت عام ہو اکرتی تھیں ، خیر اب بھی معاشرہ خالی نہیںہے ۔جب تک مو جو دہ دور کے ارباب حل وعقد کی کھیپ رہے گی یہ علم نہیںمر سکتا یہ الگ بات ہے کہ ما ضی قریب اور کچھ بعید کے دور کے حکمر ان معاملا ت میںاس طرح ذہن رسا نہیں تھے لہٰذا معاشرہ معاشرہ خشک ہو تا چلا گیا ، اب تو ماشاء اللہ ان اچھوتے کرتبوں کا میلہ لگاہی بلکہ سجا رہتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جا تا ہے کہ جب تک نئے الفاظ کا ذخیر ہ آتا رہتا ہے تب تک زبان دانی کو عروج حاصل ہوتا رہتا ہے جہا ںضرب المثل، محاورے ، تکیہ کلا می (خودکلا می نہیں ) مٹ جاتی ہے وہاںزبان دانی بھی مرجا تی ہے کسی قوم کی ترقی، تمدن وتہذیب، عروج وزوال،خوشحالی ِ،علم واہلیت ، صلا حیت و تربیت ،شجاعت و بہادری ، واسع الخیالی الغرض کسی بھی خوبی یا بدی کی پرت پرکھناہو تو اس قوم کی زبان دان کوہی پرکھا جا تا ہے الفاظ کا چنا ؤ ہی کسی کی شخصیت ، معاشرے کا محاکمہ ہو تا ہے ، اسی بناء پر سقراط حالت نزعہ میں چارپائی پر لیٹے سے اٹھ بیٹھا تھا کہ جب اس کے شاگردو ں نے اپنے استاد سے دریا فت کیا کہ وہ اپنے استاد کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں استاد ان کو وصیت کردیں کہ استا دکی آخری رسومات کس انداز میں ادا کی جائیں یہ سن کر سقراط جس کی زہر پلائے جانے کی وجہ سے سانسیں اکھڑ رہی تھیں اس عالم میں غصے اٹھ بیٹھا اور بنا ء کسی عجز والحاح کے زور لگا کے بولا کہ تم کو کئی مر تبہ یہ سمجھا یا ہے کہ الفاظ کا غلط استعمال گنا ہ عظیم ہے ، یہ بات اصلی مدینہ ریاست کے رئیس نے بھی سکھائی ہے کہ جھوٹ گناہ عظیم ہے ، جھوٹ بھی تو الفاظ کا غلط استعمال ہے۔ اسی جھوٹ سے متعلق محاورہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ، الا ما شاء اللہ دور حاضر میں ماضی زرخیزی پھر عودکر آئی ہے ، معاشرہ دن رات ترقی کررہا ہے بلکہ اوج ثریا کو چھو رہا ہے نئے نئے افکار ، جدید جملے نئی نئی اصطلاحات ، ان میں سے تو کئی چاہے وہ تکیہ کلا م ہیں ، یا محاورے ہیں یا پھر اور کچھ ہیں ایسی مقبولیت کی چوٹی پر ہیں کہ ماضی کی شادابی فن کو مات کرگئے ہیںجو کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مقبولیت حاصل نہیں ہے وہ قریہ قریہ گھوم پھر کر دیکھ لیں چھوٹا سے چھوٹے بچہ کا دامن فقرہ بازی سے لبریز ہے ، جس سے سنو وہ یہ ہی کہتا نظر آئے گا ، گھبرانا نہیں ، کسی کو نہیں چھوڑوں گا ، اب تو یہ مکالمے عوام کے لیے تکیہ کلا م ہو گئے ہیں ، اس بحران پر بھی کمیشن بٹھا دو نگا ، پھر کبھی بھی وہ کمیشن اٹھے بھی نہیں بیٹھا ہی رہ جا ئے گا ، اسی طرح جب کسی کو سمجھانا بجھا نا ہو تو عوام میں کہا جا نے لگا ہے کہ اٹھا رہ ما ہ میں تو بچہ بھی پید ا نہیں ہوتا ، دیکھیں اس سے زیادہ اور کیا قوم کو عر وج دیا جا سکتا ہے کہ اٹھارہ ما ہ میں ہا تھی کا بچہ پیدا ہو اکرتا ہے پی ٹی آئی کے زعما ء نے پوری قوم کو ہا تھی سے بھی اونچی شے بنا ڈالا ہے ، گما ن یہ ہیں کہ ہا تھی اونٹ سے قد آور ہو تا ہے ، ڈائنو سار کا زمانہ تو ہے نہیں ورنہ اس مقام پر بھی قوم کو لا کھڑ ا کردیتے پھر اقتصادیا ت کا ایک نیا اصول بھی تو واضح کیا ہے کہ مہنگائی کو روکنے کے لیے ڈالر کی قدر بڑھا دی جا تی ہے جس سے روپے کی قیمت سستی ہو جاتی ہے پھر بھی نا قدین کہتے ہیں کہ مہنگائی کر دی ہے ان کو روپے کی سستائی نظر نہیں آتی اگر بات سمجھ نہیں آتی تو شوکت یو سفزئی سے پوچھ لیں کہ روپے کی قدر میں کمی سے کتنا بہت سا فائد ہ حاصل ہو تا ہے ۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے