logo 46

مشرقیات

ایک تحفہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔بادشاہ بھرے دربار میں بیٹھا تھا۔اہالی موالی ساتھ تھے وزیر امیر پاس تھے جو رنگ ڈھنگ اور درباروں کاہوتا ہے وہی حال اس دربار کا بھی تھا۔ملازم زرق برق جوڑے پہنے اپنے اپنے کاموں پہ لگے تھے۔بادشاہ جسے تحفہ پیش کیا گیا ساسانی خاندان کا بادشاہ اسماعیل تھا تاریخ میں اس کی بڑی خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ رحمدل تھا۔انصاف کرنے والا تھا اپنے آرام اور اپنی راحت سے زیادہ رعایا کا خیال رکھتا تھا۔اس کی طرف سے عام اجازت تھی کہ ملک کے رہنے والوں میں سے جسے کوئی کام ہو وہ دربار میں آکر مل سکتا ہے۔شاہ اسماعیل کے دربار میں ایک دن ایک غریب کسان آیا اسے جو کچھ بادشاہ سے کہنا تھا وہ کہہ چکا تو بولا غریب آدمی ہوں لیکن ایک تحفہ آپ کے لئے لایا ہوں بہت معمولی آپ کو پیش کرتے ہوئے خود مجھے شرم آتی ہے۔بہرحال اگر اجازت ہو تو پیش کروں!بادشاہ نے کہا۔۔ضرور!ہمیں تمہارا تحفہ قبول کر کے بڑی خوشی ہوگی۔تحفہ تو تحفہ ہوتا ہے۔چاہے کچھ ہو۔حکم ہے اس کی قدر کرو یہ لانے والے کی محبت اور خلوص کی نشانی ہے۔تحفہ اگر معمولی ہو تو بھی بڑا قیمتی ہوتا ہے۔تحفہ دینے والے کا دل کبھی نہ توڑو۔حکم نبوی ہے کہ تحفے کے جواب میں بھی تحفہ دیا جانا چاہیئے اس سے محبت بڑھتی ہے ۔تحفے کے لئے ضروری نہیں کہ تکلف کیا جائے کچھ بھی دے سکتے ہیں۔بادشاہ نے اجازت دی تو غریب کسان نے اپنے رومال میںسے نکال کر کچھ ککڑیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کیں۔سارا دربار دیکھ رہا تھا کہ یہ تحفہ بادشاہ کے شایان شان نہ تھا لیکن شاہ اسماعیل نے بڑی محبت سے اس غریب کسان کا تحفہ قبول کیا۔نہ صرف یہ کہ اسے قبول کیا بلکہ اپنے خدمتگار کو حکم دیا کہ فوراًکچھ ککڑیوں کی تعاشیں تراش کر لے آئو ترشی ہوئی قاشیں آئیں تو بادشاہ نے ایک قاش اٹھائی منہ میں رکھی مزے لے لے کر اُسے کھایا پھر بولا تحفہ کے جواب میں ہم بھی تحفہ پیش کریں گے۔بہت سا انعام لے کر کسان خوشی خوشی اپنے گھر لوٹ گیا۔تھوڑی دیر میں یہ دربار ختم ہوگیا۔ صرف چند بڑے بڑے وزیر رہ گئے تو کسی نے ککڑی کی قاش کو دیکھ کر بادشاہ سے کہا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سرکار نے تحفہ قبول کیا ہو اور ہمیں اس میںسے کچھ نہ کچھ تبر کا نہ دیا ہو! لیکن اس مرتبہ ہم تبرک سے محروم رہے۔بادشاہ نے کہا میرے پاس آئو ایک قاش اٹھائو اور کھائو! اس وزیر نے قاش منہ میں رکھ کر چبائی تو بُرا سا منہ بنایا فوراً اُسے الٹ دیا بولا سرکار والا یہ توکڑوی ہے سخت کڑوی!۔بادشاہ نے کہا یہی بات میں اس کسان کے سامنے سُننا نہیں چاہتا تھا۔میں یہ قاشیں بانٹ دیتا اور تم میں سے ہر ایک اسے چھک کر تھوک دیتا تو اس غریب کسان کو سخت شرمندگی ہوتی دوسرے کو شرمندگی سے بچانا بڑی شرافت کی بات ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی