3 234

میں دوستوں کے جنازے اُٹھانا جانتا ہوں

قومیں آگے بڑھتی ہیں ہم ایک بار پھر پیچھے کی طرف جارہے ہیں، ستر (70 ) کی دہائی کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب سابق مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن اور ان کے حامیوں پر غداری کے الزامات لگائے گئے اور سازش کے تحت انہیں قیدکیا گیا تو مشرقی پاکستان میں عوامی جذبات طوفان بن کر اُبھرے، اس کے بعد مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں بنگالیوں کو من حیث المجموع غدار قرار دینے کی مہم اس طرح چلائی گئی کہ ایک سیاسی رہنماء کے یہ الفاظ ”خدا کاشکر ہے پاکستان بچ گیا” بھی اسی غداری کے طوفان میں غرق ہوگئے اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑا کر اپنے لئے علیحدہ وطن تخلیق کیا۔ بدقسمتی سے ہم نے اتنے بڑے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور باقی بچی کھچی قوم نے ایک بار پھر اکثریت کے بل پر چھوٹے صوبوں کے استحصال کو وتیرہ بنا کر اپنے لئے نئے ”غلام” ڈھونڈ لئے۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کی اگر ہم نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ہوتیں تو شاید اس سے ہم سبق سیکھ بھی لیتے اور آج حالات اس مقام پر نہ پہنچتے جن کی وجہ سے ایک بار پھر آزمائشوں میں ہم گھر چکے ہیں۔ مرحوم بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے صرف ایک پہلو کے بارے میں تحقیقات کرانے کیلئے کمیشن قائم کیا اور صرف دفاعی یا عسکری وجوہات تک کمیشن کے اختیار کو محدود رکھا جبکہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی وجوہات سے صرف نظر کیا۔ اس کے باوجود تحقیقاتی کمیشن کے سامنے (نہ چاہتے ہوئے بھی) سیاسی محرکات سامنے آتے رہے کہ ان سے مفر کی کوئی صورت دکھائی ہی نہیں دیتی تھی، تاہم سیاسی وجوہات کے حوالے سے سیاسی قائدین کا کردار بھی واضح ہوتا چلا گیا، اس لئے جب حمود الرحمن کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ بھٹو مرحوم کو پیش کی تو بعض اطلاعات کے مطابق مرحوم نے رپورٹ کی تمام (غالباً تین) کاپیاں ضائع کردیں۔ کئی برس بعد محولہ رپورٹ کے کچھ حصے بھارت میں شائع ہوئے جس کی نہ تو اب تک ہمارے ہاںسرکاری سطح پر تردید ہوسکی ہے نہ تصدیق۔ خداجانے وہاں یہ رپورٹ کیسے اور کن ذرائع سے پہنچی۔ تاہم اس سب سے قطع نظر اس وقت صورتحال پر بحث مقصود ہے جس نے ایک بار پھر ملک میں غداریوں کے الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے اور جس طرح سابق مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی پر مغربی پاکستان کی اقلیتی آبادی کی جانب سے غداریوں کے الزامات لگا کر ملک کی اکثریت کو علیحدگی کی راہ سجھائی۔ خدشہ ہے کہ (اللہ نہ کرے) بعض وزراء جس طرح غداریوں کے سرٹیفکیٹ سرعام تقسیم کرتے پھر رہے ہیں، صورتحال ایک بار پھر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ پہنچ جائیں۔ بقول پیرازادہ قاسم
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
گلگت بلتستان کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر نے غداریوں کے اسناد دو مخالف سیاسی جماعتوں یعنی لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے محدودے چند رہنماؤں میں اب تک بانٹنے کے بیانئے کو وسعت دیتے ہوئے ملک کی اکثریتی آبادی تک توسیع دیدی ہے اور کہا ہے کہ زرداری، نواز کے جھنڈے لیکر پھرنے والے بھی غدار ہیں۔ موصوف کے اس استدلال کو درست قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کی مشیر اطلاعات نے بھی حمایتی بیان دیدیا ہے، یوں دونوں مخالف جماعتوں کے عام ورکروں کو بھی غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ کر جس صورتحال کو جنم دینے کی کوشش کی ہے، اس سے ممکن ہے وقتی طور پر بعض لوگ خوش ہوتے ہوں لیکن اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں شاید کوئی بھی سوچنے کی زحمت نہیں کررہا ہے۔
قصور ان لوگوں کا نہیں جو غداریوں کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتے ہیں اور الفاظ منہ سے نکالتے ہوئے ہوش وخرد کا دامن بھی تھامنے سے گریزاں رہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کو بعد میں ہوش آتا ہے تو پھر آئیں بائیں شائیں بھی کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل یہ جو انگریز نے ایک لفظ سوری ایجاد کر رکھا ہے اس کی معنویت اس قدر وسیع ہے کہ آپ کسی کی بھی ایسی کی تیسی کردیں مگر بعد میں صرف سوری کہہ کر جان بخشی کرالیں۔ اور پختونوں کی بھی ایک سب سے بڑی کمزوری عذر خواہی کیلئے آنے والوں کو معافی دے کر اپنی وسعت قلبی کا اظہار ہے جس پر گزشتہ روز ایک بار پھر عمل کرتے دیکھا گیا۔ یعنی پختونوں کی قربانیوں کو زیرو سے ضرب دیکر جس طرح ایک وفاقی وزیر نے ان کے رہنماؤں کی شہادت کو الگ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی آڑ میں دھمکیاں دینے کی کوشش کی تھی، اس کیلئے جرگے کی صورت میں آخر معافی تلافی کی کوشش کی گئی، بلور خاندان اور میاں افتخار کے فرزند کی شہادتوں کو دھمکی میں تبدیل کرنے کا جس طرح اے این پی نے نوٹس لیکر احتجاج کا اعلان کیا اس پر معذرت قبول کر کے پختون قیادت نے بہرحال وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا مگر صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے والوں کی زبانیں کیاآئندہ محتاط رہیں گی؟ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ بقول بیدل حیدری
شکست دل کا مجھے بھی ملال ہے لیکن
میں دوستوں کے جنازے اُٹھانا جانتا ہوں

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش