1 309

بے خبری سے قومی اتفاق رائے تک

صدر مملکت عارف علوی کی بے خبری کا عالم یہ ہے کہ ہسپتال میں زیرعلاج سابق وزیراعظم میرظفر اللہ خان جمالی کی وفات سے عبارت تعزیتی ٹویٹ جاری کر دی، چند ہی لمحوں میں اس صف میں وفاقی وزیرعلی محمد خان اور سینیٹر فیصل جاوید بھی شامل ہوگئے، پھر کسی ”باخبر” ذریعے نے صدر مملکت کو اطلاع دی ”حضور جسے آپ مرحوم سمجھ کر اس کے خاندان سے تعزیت فرما رہے ہیں وہ زندہ ہے”۔ انہوں نے تعزیتی ٹویٹ ڈیلیٹ کرتے ہوئے معذرت کرلی، فقیر راحموں صدر مملکت کی بے خبریوں کی بہت ساری کہانیاں سناتے ہوئے ایک ویڈیو دکھانے لگے، یہ ویڈیو چند سال پرانی ہے اور اس وقت کی جب کراچی میں شدید بارشوں نے سیلابی صورتحال پیدا کر دی تھی اور جناب عارف علوی جو اس وقت کراچی سے رکن قومی اسمبلی ہوا کرتے تھے لائف سیونگ جیکٹ پہنے سوا فٹ پانی میں ربڑ والی کشتی گھسیٹتے ہوئے یہ کہتے سنائی دئیے کہ ”حکومت کو سیلاب کی صورتحال کا احساس ہی نہیں ہم یہاں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں”۔ سوا فٹ پانی میں امدادی سرگرمیاں، یہ کارنامہ عارف علوی ہی سرانجام دے سکتے تھے، سو انہوں نے دیا بھی۔ زندہ میر ظفر اللہ جمالی کی وفات پر تعزیت اور اہل خانہ کیلئے ہمدردی بھرا پیغام یہ سعادت بھی ان کے مقدر میں لکھی تھی، اُمید ہے کہ صدر مملکت مستقبل میں کسی حقیقی مرحوم کی تعزیت کرتے ہوئے بھی سو بار سوچیں گے بلکہ ممکن ہوا تو مرحوم کا کاندھا پکڑ کر پوچھ بھی لیں گے۔ ”بھائی صاحب! واقعی سانحہ ارتحال ہوگیا ہے یا آپ کو بھی شک ہے؟۔ ایسی ہی دلچسپ بات فردوس عاشق اعوان نے 30 نومبر کی دوپہر سوا ایک بجے کہی، فرمایا ”پی ڈی ایم والے اپنے جلسہ کا سامان اُٹھا کر بھاگ گئے ہیں، ملتان والوں نے انہیں مسترد کر دیا ہے”۔ جب آپا فردوس اعوان پی ڈی ایم کے بھاگ جانے کا دعویٰ کر رہی تھیں اس وقت قاسم باغ کے باہر چوک گھنٹہ گھر میں لگ بھگ 15 ہزار افراد جمع تھے اور وقت گزرنے کیساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ باوجود اس کے کہ ملتان کے داخلی راستے بند تھے پھر بھی چوک گھنٹہ گھر میں ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا ظاہر ہے کہ یہ لوگ ملتان شہر سے ہی جلسہ میں شریک تھے یقینا ان میں چند صد وہ بھی تھے جو دو دن قبل پی پی پی کا 53 واں یوم تاسیس منانے ملتان پہنچے تھے، توقع سے زیادہ ہجوم دیکھ کر ہی انتظامیہ نے پولیس کو پیچھے ہٹانے کا ہنگامی طور پر فیصلہ کیا اور یہی فیصلہ مناسب تھا۔
رہا وزیراطلاعات جناب شبلی فراز کا یہ کہنا کہ ہم جلسوں اور جلوسوں سے ڈرنے والے نہیں” ڈرنا بھی نہیں چاہئے، جب 2014 میں ان کی جماعت نے لاہور، اسلام آباد لاگ مارچ اور پھر 126 دن کا دھرنا دیا تھا اور روزانہ یہ خبر سنائی جاتی تھی کہ کل لیگی حکومت نہیں ہوگی، اس وقت لیگی حکومت بھی نہیں ڈری تھی۔ سیاست وصحافت کے ہم ایسے طلباء کا خیال ہے کہ اگر 2013 کے انتخابی نتائج کو معاونین و اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے چرانے والی نون لیگ کو جمہوریت پسند جماعتیں پانچ سال برداشت کر سکتی ہیں تو تحریک انصاف کو بھی برداشت کریں۔ ہاں یہ اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ عوامی مسائل پر رابطہ عوام مہم جاری رکھے اور حکومت کو باور کرواتی رہے کہ جمہوری نظام میں حزب اختلاف کی بھی اتنی ہی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے جتنی حکمران جماعت کی۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوری نظام کیلئے لازم وملزوم ہیں، اپوزیشن نہ ہو یا اس کی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر شخصی حکومت کا تصور نہ صرف اُبھرتا ہے بلکہ اقدامات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے حکومت نہ ملی ہو بلکہ حق ملکیت مل گیا ہو۔ بہت احترام سے اگر یہ عرض کروں کہ بدقسمتی سے تحریک انصاف حزب اختلاف کے وجود اور جمہوری حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، اس کے چھوٹے بڑے جمہوری حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی طرح نہیں بلکہ جاگیردارانہ ملکیت رکھنے والے انداز میں بات کرتے ہیں۔ بات ہی نہیں کرتے بلکہ کچھ تو گالم گلوچ پر بھی اُتر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کی اطلاعات کیلئے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے 29 اور پھر 30 نومبر کو حزب مخالف پی ڈی ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کیلئے جو زبان استعمال کی وہ جمہوری روایات اور سماجی اخلاقیات کے منافی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں جب فردوس عاشق اعوان نے یہ زبان استعمال کی ہو، وہ خود بھی دودھ کی دھلی نظریاتی سیاستدان ہرگز نہیں، تحریک انصاف ان کی چوتھی سیاسی جماعت ہے اور اس میں بھی وہ ایک محکمہ کے ضلعی سربراہ کے فون پر شامل ہوئی تھیں۔ خیر ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں نظریہ اب کتابوں اور یاداشتوں میں ملتا ہے عملی طور پر جو ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن درمیان کا راستہ نکالیں، پی ڈی ایم احتجاج بے شک کرے مگر مذاکرات کا دروازہ بند نہ کرے، سیاسی عمل اور نظام دونوں کو آگے بڑھنا چاہئے، اس ملک کے عوام کے حقیقی مسائل حل ہونے چاہئیں۔ عدم برداشت کی سیاست نے ہمیں جو گھاؤ لگائے ہیں ان سے وقت گزر جانے کے باوجود خون رس رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہماری سیاسی قیادت مسائل کے حل اور چیلنجز کے مقابلہ کیلئے قومی اتفاق رائے پر آمادہ ہوجائے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''