پولیس لائنز دھماکے کی نوعیت

دھماکے کی نوعیت کاتعین ہوانہ کوئی استعفیٰ آیا،بمبارکاسرملنے کادعویٰ

ویب ڈیسک: پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے تین روز بعد بھی حملہ کی نوعیت مکمل طور پر واضح نہیں ہوسکی ہے جبکہ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اب تک سامنے نہیں آئی ہے پیر کے روز دوپہر ایک بجے کے قریب پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکہ ہوا تب سے اب تک یہ معمہ حل نہیں ہوسکا ہے کہ یہ دھماکہ خود کش تھا یا بم نصب کیا گیا تھا ابتدائی رپورت کے مطابق دھماکے کے مقام پر کوئی گڑھا نہیں پڑا ہے اس لئے یہ بظاہر خود کش ہی ہے تاہم تین روز بعد بھی قیاس آرائیوں پر کام چلایا جا رہا ہے
پولیس لائنز سمیت پورے سول سیکرٹریٹ میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں تاہم اب تک اس دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے نہیں آسکی ہے جس نے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کردیا ہے خیبر پختونخوا کی تاریخ میں یہ پہلا دھماکہ ہے جس کے تین روز بعد بھی یہ واضح نہیں ہورہا ہے کہ اس کی نوعیت کی ہے اس سے قبل کراچی میں 10محرم کے جلوس پر ہونیوالا دھماکہ تین روز تک خود کش قرار دیا گیا تھا تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دھماکہ خود کش نہیں بلکہ جلوس کے راستے میں موجود قرآنی آیات کے ڈبے میں رکھے گئے بارود مواد کے پھٹنے سے ہوا تھا۔ دوسری طرف پولیس کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ پشاور پولیس لائنز دھماکے میں مبینہ خودکش حملہ آور کا سر اور اعضا ء مل گئے جنہیں ڈی این اے کیلئے فرانزک لیب بھجوا دیا گیا ہے۔
دھماکے میں اب تک 101افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ ہسپتال میں دھماکے کے زخمیوں کی تعداد 49 رہ گئی ہے جن میں7انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ پیر کے روز ملک سعد شہید پولیس لائنز میں نماز ظہر کے وقت دھماکہ ہوا تھا جس میں شہید ہونیوالوں کی تعداد 101 ہو چکی ہے جبکہ 150سے زائد زخمی ہوگئے تھے
جن میں سے بیشتر زخمیوں کو علاج کے بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکہ کرنیوالے مبینہ حملہ آور کا سر اور کچھ اعضاء ملے ہیں اور یہ بظاہر خود کش حملہ تھا۔ مبینہ خود کش حملہ آور کا سر اور اعضا ء کے نمونے حاصل کر کے ڈی این اے کیلئے فرانزک لیب کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی چھان بین جاری ہے اور ان کے ذریعہ دھماکے کی وجوہات کا تعین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشنز ہونے چاہئیں، بڑے آپریشن کیلئے آبادی کے انخلاء کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ آئی جی پی نے مزید کہا کہ دہشتگردوں کا کنٹرول کسی علاقے پر اس طرح نہیں ہے جس طرح 10یا 12سال پہلے تھا۔
پولیس سربراہ نے کہا کہ یہاں پر تخریب کاری کے بعد اگر کوئی دہشتگرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے تو معاہدے کے مطابق اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف پولیس کی جنگ نہیں ہے، قوم کی جنگ ہے، قوم نے پہلے بھی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قربانیاں دیں اور قوم اب بھی پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ2021ء میں افغانستان میں نئی حکومت آئی اور بہت سارے عسکریت پسند جیلوں سے فرار ہوئے یا پھر رہا کئے گئے
جنہوں نے پاکستان آ کر پناہ لی۔ اب وہ اس سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔ معظم جاہ انصاری نے کہا کہ گزشتہ سال 1000سے زائد حملے ہوئے۔ 2020ء میں پولیس کی 21شہادتوں کی نسبت 2021ء میں یہ شہادتیں 54 تک پہنچیں جبکہ 2022ء میں 119 پولیس اہلکار شہید کئے گئے تاہم ان حملوں کے باوجود پولیس کا مورال بلند ہے اور ہم اس جنگ کو جیتنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔

مزید پڑھیں:  کوہستان میں لینڈ سلائیڈنگ، شاہراہ قراقرم بند، سیکڑوں مسافر پھنس گئے