5 305

ایک خطے میں کشیدگی کے دو ماڈل

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ کہہ کر کہ یہ وقت ہے ہم ہر طرف امن کا ہاتھ بڑھائیں، ایک بار پھر بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کی جانب امن کے نام پر شاخِ زیتون اُچھال دی ہے۔ پی اے ایف اکیڈمی اصغر خان میں مختلف کورسز کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت پرامن طور پر دیرینہ تنازعہ کشمیر کو حل کریں۔ مسئلہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ تنازعہ کشمیر کا حل انسانی المیے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا باعث بنے گا۔ جنرل باجوہ نے ملفوف انداز میں بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات کی دعوت دی ہے اور خطے کے امن کو کشمیر سے مشروط رکھا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاملات جس طرح اُلجھ کر رہ گئے ہیں اس صورتحال نے دنیا کو متفکر کر رکھا ہے۔ ایک ہی خطے میں اس وقت کشیدگی کے دو ماڈل ہیں۔ ایک ماڈل بھارت چین کشیدگی ہے اور دوسرا بھارت پاکستان کشیدگی ہے۔ چین بھارت ماڈل میں زیادہ شدت اور سنگینی بہت تازہ اور نئی نئی ہے۔ چین نے عملی پیش قدمی کر کے کئی علاقوں کا کنٹرول بھی حاصل کیا اور وہ مزید داؤ پیچ کھیلنے میں بھی مصروف ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈر مذاکراتی عمل میں مصروف ہیں اور چند ماہ میں دونوں افواج کے درمیان مذاکرات کے نو ادورا ہو چکے ہیں، گویا کہ تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں ہوئے اور کشیدگی کے باوجود معاملات ڈیڈلاک کا شکار نہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ماسکو میں ملنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ ایک ڈھیلا ڈھالا معاہدہ بھی کر جاتے ہیں۔ سرحد پر جاری جھڑپوں اور دھینگا مشتی کے باوجود تجارت اور سفارت کاری کے دوسرے انداز بھی جاری ہیں، اس کے برعکس پاک بھارت کشیدگی کے ماڈل میں کشیدگی جس قدر پرانی ہے اس سے کہیں زیادہ انجماد کا شکار دونوں ملکوں کے تعلقات ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پردے کے آگے اور پیچھے مذاکرات اور تعلقات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سفارتی تعلقات کا گراف بری طرح گر چکا ہے۔ بہت ضروری معاملات پر تعلقات کی چیونٹی رینگ رہی ہے اور اس صورتحال کی وجہ کشمیر پر پیدا ہونے والی کشیدگی ہے۔ مشترکہ فورمز پر بیٹھنے کی صورت بھی باقی نہیں رہی اور سارک جیسا علاقائی فورم قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ یہ چین بھارت کشیدگی سے زیادہ خطرناک انداز ہے۔اس صورتحال کا اندازہ دنیا کو کسی حد تک ہوچکا ہے کہ کشمیر کو فریز یا بائی پاس کرکے پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں رواں سال کی پہلی پریس کانفرنس میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کیلئے اپنی ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کیا تھا۔ انٹونیو گوئٹرس کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ بات چیت شروع کریں، اس کیلئے ثالث کے طور پر اقوام متحدہ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہر وقت دستیاب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دیرینہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تصادم صرف دو ملکوں کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے تباہ کن ہوگا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوئٹرس نے 8اگست 2019 کو اس وقت بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی جب پانچ اگست کے یکطرفہ قدم کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام رابط منقطع ہو چکے تھے اور کشیدگی کا گراف بڑھتا جا رہا تھا۔ اب بھی سفارتی اور تجارتی تعلقات منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سکوتِ مرگ طاری کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ اس کیلئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ پورے زوروں پر ہے۔ خوف اور دہشت کا ایک ماحول بنا کر مقاصد کے حصول کی کوششیں جاری ہیں۔ ہر ستم ڈھانے کے باوجود بھارت اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کشمیر میں حالات کی ڈور روزبروز اُلجھتی جا رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمی ادارے کے سربراہ نے بھی حالات کی سنگینی کا اعتراف کیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب ایک دیرینہ مسئلے کے حل کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اس طرح کی پیشکشوں سے بھارت کا اٹوٹ انگ کا دعویٰ ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہوتا تو عالمی ادارے کے سربراہ کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ظاہر ہے حقیقت یہ نہیں بلکہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی فائلوں اور تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا محور ہونے کی وجہ سے لمحۂ موجود کا مسئلہ بھی ہے۔ اس لئے عالمی ادارہ اس خطے کے حالات سے غافل نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کو اب حالات کی سنگینی کا احساس کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی میکینزم پر زور دینا چاہیے۔ مشوروں، نصیحتوں اور وعظ وتلقین سے مسئلہ حل ہونا ہوتا تو برسوں پہلے ہوجاتا۔ یہ سب طریقے ناکام ہو چکے ہیں اور ایک قدم آگے بڑھا کر عالمی ادارے کو اب کوئی نیا طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں