p613 332

مشرقیات

سیدنا عمر فاروق نے قانون مساوات نہ صرف مدینہ میں نافذ کر رکھا تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ میں تمام گورنروں کو یہی احکام دے رکھے تھے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کے سلسلے میں بھی یہی قانون سرکاری طور پر نافذ تھا۔ ایک مرتبہ جب عتبہ بن فرقہ آذربائیجان کے حاکم بن کر وہاں پہنچے تو ان کے سامنے کھجور اور گھی سے تیار کردہ حلوہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے کھایا اور اسے بہت عمدہ اور شیریں پایا۔ عتبہ کے دل میں خیال آیا: کیوں نہ ایسا اچھا حلوہ امیرالمومنین کی خدمت میں ارسال کیا جائے۔ انہوں نے اس حلوے کے دو بڑے بڑے ٹوکر ے تیار کرائے اور دو آدمیوں کی معیت میں سیدنا عمر کی خدمت میں روانہ فرما دئیے۔ سیدنا عمر نے انہیں کھول کر دیکھا تو دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ گھی اور کھجور کا تیار شدہ حلوہ ہے۔ انہوںنے اسے چکھا، معلوم ہوا کہ یہ کوئی عمدہ میٹھی چیز ہے۔ دریافت فرمایا: کیا وہاں سب لوگ گھروں میں ایسی ہی خوراک کھاتے ہیں؟ جواب دیا گیا: نہیں اس پر آپ نے حکم دیا: اسے واپس بھیج دو، پھر عتبہ کے نام یہ تحریر لکھی۔ یہ تمہارے والدین کا کمایا ہوا مال نہیں۔ تمہیں ایسی ہی خوراک استعمال کرنی چاہئے جو وہاں کے عام لوگوں کو میسر ہو۔٭ مساوات کی اس سے بہتر مثال تاریخ میں نہیں مل سکتی کہ بیت المال کو حقیقی معنوںمیں صرف عوام کا مال مانا گیا۔سیدنا عمر کے خادم اسلم بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ سیدنا عمر فاروق نے اپنے ایک غلام کو ایک سرکاری چراگاہ کا نگران مقرر کیا اور اسے کام سے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ”مسلمانوں سے نرم رویہ اختیار کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔ اونٹوں اور بکریوں والوں کو اس چراگاہ میں آنے سے نہ روکنا۔ عبدالرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان کے جانوروں کو بھی اس سرکاری چراگاہ میں چرنے دینا کیونکہ اگر ان دونوں کے جانور ہلاک ہوگئے تو یہ لوگ کھیتی باڑی اور کھجور کے باغات کی طرف رجوع کریں گے اور لڑائی کیلئے نہیں نکل سکیں گے جبکہ ہمیں جہادی معرکوں میں ان جیسے بہادر لوگوں کی سخت ضرورت رہتی ہے۔ اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ بھوک کے باعث ہلاک ہوگئے تو ان کے مالکان اپنے بچوں سمیت میرے پاس آجائیں گے اور کہیں گے کہ امیرالمؤمنین! ہماری حاجت پوری فرمائیے! ایسی صورت میں کیا میں انہیں خالی ہاتھ واپس بھیج سکتا ہوں؟ آج ان چراگاہوں کیلئے پانی اور گھاس کی فراہمی حکومت کیلئے آسان ہے لیکن جب ان کے جانور نہ رہیں گے اور یہ محتاج ہو جائیں گے تو پھر انہیں بیت المال سے سونا اور چاندی امداد کے طور پر دینا پڑے گا۔ اگر کسی کو کم امداد ملی تو یہ لوگ خیال کریں گے کہ میں ان پر ظلم کر رہا ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان چراگاہوں پر خرچ کرکے لوگوں کو جہاد کیلئے تیار کرتا ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان کے شہروں کی قیمتی زمین کو کبھی چراگاہ کے طور پر استعمال نہ کرتا”۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''