p613 355

سکریننگ ٹیسٹ کے جلدانعقاد و بروقت نتائج کی ضرورت

خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کی جانب سے محکمہ اعلیٰ تعلیم میں فی میل لیکچررز کی بھرتیوں کے لئے اسکریننگ ٹیسٹ منعقد کرنے کا فیصلہ خوش آئند امر ہے مذکورہ آسامیوں پر بھرتیوں کے لئے اسکریننگ ٹیسٹ کا انعقاد امیدواروں کا پر زور مطالبہ تھا۔ قبل ا زیں کمیشن نے 1900لیکچررز کی آسامیوں پر بھرتیاں امیدواروں کے اکیڈمک نمبروں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا تھاپبلک سروس کمیشن کے پہلے اقدام سے بھرتیوں میں سرعت ضرور ہوتی لیکن اس میں اقربا پروری اور ناانصافی کے امکانات زیادہ تھے ہمارے امتحانی نظام میں اکیڈمک نمبر لینے کے مختلف طریقے اور معاملات مروج ہیں اس طرح کے امیدواروں کا انٹرویو میں بھی ہاتھ پیر چلا کر خود کو منتخب کرنے میں کامیابی کا امکان زیادہ تھا جس سے حقدار امیدواروں کی حق تلفی ہوتی سکریننگ ٹیسٹ میں پاس ہونے والے امیدوار تحریری امتحان میں خود کو اہل ثابت کرکے آئیں تب بھی ان کو اکیڈمک نمبروں کا فائدہ ضرور ملے گا ممکن ہے بہت سے اچھے نمبر لینے والے تحریری امتحان پاس نہ کر سکیں اور اوسط درجے کے محنتی امیدوار آگے آئیں بہرحال اس طریقے کے تحت جو بھی امیدوار سامنے آئیں گے وہ میرٹ اور شفافیت سے آگے آئیں گے جن کی تعلیمی اداروں کو ضرورت ہے ۔طریقہ کار کی اصلاح کے بعد پبلک سروس کمیشن کو جلد سے جلد تحریری امتحان لینے اور اہل امیدواروں سے انٹرویو اور تقرری کی سفارش کے امور میں تساہل و تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر تیاری ‘اقدامات کی ضرورت ہے ۔
یکساں نظام تعلیم و نصاب
خیبر پختونخوا کابینہ کی منظوری کے بعد صوبے میں یکساں نظام تعلیم مرحلہ وار رائج کیا جائے گا مڈل تک نصاب تعلیم آخری مراحل میں ہے جبکہ اس کے بعد ہائی اور ہائیر سیکنڈری کیلئے یکساں نصاب رائج کیا جائے گا۔ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم سے متعلق فیصلہ مکمل طور پر صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم احسن فیصلہ ضرور ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں ابھی کئی قسم کی رکاوٹیں ہیں جس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود وہ فیصلہ ساز ہیں جن کے مفادات تعلیم کے شعبے اور معاملات سے متعلق ہیں کابینہ کی منظوری کے باوجود اس کے نفاذ میں ابھی نادیدہ رکاوٹیں متوقع ہیں جن سے گزر کر ہی یکساں نصاب تعلیم پر عملدرآمد کی نوبت آئے گی۔اس کے باوجود کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ صوبائی مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ قومی مسئلہ بھی ہے کہ آگے چل کر طالب علموں کا مقابلہ اور واسطہ قومی سطح ہی پر ہو گا۔ بہر حال نصاب کی تیاری اور رائج کرتے ہوئے ان امور کو خواہ مخواہ مدنظر رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ مرتب نصاب اور اس کا معیار نہ صرف قومی سطح کا ہو بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہوناچاہئے۔بیرون ملک پڑھ کر آنے والوں سے مسابقت میں ہمارے طلبہ پیچھے نہ رہیں علاوہ ازیں نصاب کا معیار اس سطح کا ہو جو ہماری ضرورتوں کے مطابق ہو اور لوگ اسے اپنانے پر تیار ہوں نہ کہ دوسرے بورڈز کا سہارا لیں یا بیرون ملک تعلیم کو ترجیح دینے لگیں۔جس کے نتیجے میںجو خلاء اب موجود ہے نہ صرف خلاء باقی رہے بلکہ مزید وسیع ہو۔تمام امور کو مد نظر رکھ کر فیصلہ و عملی اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ کوئی خلاء باقی نہ رہے۔
جانی خیل میں حالات کو بگڑنے نہ دیا جائے
جانی خیل میں معصوم نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے واقعے سے علاقے میں احتجاج اور حکومتی یقین دہانی کے بعد لاشوں کی تدفین کا معاملہ تو خوش اسلوبی سے طے پایا تھا اور حکومت نے اس حوالے سے یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن ایسالگتا ہے کہ معاملات کا تصفیہ نہیں ہوا تھا بلکہ راکھ میں چنگاری دبا دی گئی تھی جس کے مظاہر اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔جانی خیل قبائل کے رہنما کے قتل واقعہ پر احتجاج دھرنا اور چار نوجوانوں کی لاشیں نکالنے کا فیصلہ اگرچہ ملتوی کیا گیا تاہم یہ انتہائی اقدام کی دھمکی تھی جو نہایت سنگین معاملہ اور آئندہ کیلئے بھی خطرے کی بات ہے ۔ اس دھمکی جس سے علاقے کے عمائدین اور عوام کے غم و غصے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ جانی خیل میں حالات کو سدھارنے کا واحد طریقہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے میڈیا کے سامنے معاہدہ اور اس حوالے سے یقین دہانیوں پر عملدرآمد ہے جانی خیل میں بجائے اس کے کہ سابقہ وعدے پورے کرکے عوام کو تشقی کرا دی جاتی الٹا ایک اور قبائلی شخصیت کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ان کا قتل جس نے بھی کیا ہو علاقے کے عوام کا اشتعال میں آنافطری امر ہے اس ساری صورتحال کو بعض سیاسی اور دیگر عناصر کی طرف سے ہوا دینے کا عمل اپنی جگہ توجہ طلب اور مشکل صورتحال پیدا کرنے کا باعث ہے جتنا جلد ہو سکے احتجاج کے اس لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی سعی کی جائے اور علاقے کے عوام سے بات چیت کرکے ان کی تسلی و تشفی کرنا ضروری ہے ۔
بی آر ٹی تکمیل سے قبل ہی مسائل کا شکار
خیبر پختونخوا حکومت نے بی آر ٹی پشاور میں سامنے آنے والے تکنیکی مسائل کے حل کے لئے نجی شعبہ کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری دے دی نجی شعبہ کنسلٹنٹسی کے تحت صوبائی حکومت کو تجاویز دے گی جسے بی آر ٹی کی تعمیر کے دوران تکنیکی اعتبار سے سامنے آنے والے مسائل کے حل کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ بی آر ٹی کے باعث شہر میں لاکھوںشہریوں کو آسان سفری سہولیات فراہم کی گئی ہیں تاہم ٹریفک کا اژدھام بھی مزید سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔بی آر ٹی منصوبہ روزاول سے تاایندم منصوبہ بندی کے فقدان اور پیچیدگیوں کا حامل ایسا منصوبہ رہا ہے جس سے عوام کو بہتر سفری سہولت ضرور میسر آئی ہیں لیکن اس سے مشکلات میں اضافہ بھی ہوا ہے شہر کی دو حصوں میں تقسیم اور نجی ٹرانسپورٹ کے تقریباً بند ہو جانے کے باعث اس کے فوائد و نقصانات میں توازن مشکل امر بن گیا ہے ۔ بی آر ٹی کی تعمیر کا سال بھی مکمل نہیں ہوا لیکن سٹیشنوں اور کاریڈور کی سڑک کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے شہری مسائل میں اضافہ اپنی جگہ ابھی تک بی آر ٹی کے اہم منصوبے بھی بدستور نامکمل ہیں ان تمام امور کاجائزہ لینے ‘ خرابیوں کی نشاندہی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ تمام نقائص کو دور کرکے اسے حقیقی معنوں میں عوامی اور نافع بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''