3 415

گدھوں کی تعداد میں اضافہ

گدھوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہوگیا کہ یار لوگوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا اور کیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان برپا ہو گیا ہے ‘جسے دیکھو مختلف پوسٹوں کے ذریعے ایک ”آگہی مہم” برپا کر دی ہے جس میں مختلف تصویریں بھی شامل کی جا رہی ہے ‘ حالانکہ یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں کیونکہ اگر گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے تو اس سے زیادہ تعداد تو بھیڑ وں’ بکریوں اور بھینسوں کی بڑھی ہے’ جو بالترتیب 4لاکھ ‘ 21لاکھ اور 12لاکھ کی تعداد کے اضافے کے ساتھ گدھوں سے کہیں زیادہ ہیں ‘ مگر خدا جانے صرف ایک لاکھ گدھوں کی پیدائش پر اتنی خوشی کیوں منائی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک کہانی بہت مشہور ہے کہ ایران میں کسی گائوں سے ایک کمہار اپنے گدھے پر سامان بیچنے شہر آیا ہوا تھا’ سودا بیچ کر وہ اپنے گدھے کو ہانکتا ہوا واپس جا رہا تھا کہ اس کا گزر ایک ایسی گلی میں سے ہوا جہاں ایک مدرسہ موجود تھا’ پرانا زمانہ تھا’ لوگ بھی سادہ تھے’ گدھے والا مدرسے میں پڑھنے والے بچوںکی جانب متوجہ ہوا’ جن میں سے ایک نالائق لڑکے کو استاد سبق یاد کرنے پر ڈانٹ رہا تھا اور اس کو دو چار چھڑیاں مارتے ہوئے کہا : اگر تمہاری جگہ کوئی گدھا بھی ہوتا تو اب تک میں اسے پڑھا کر انسان بنا چکا ہوتا۔ گدھے والے کی کوئی اولاد نہیں تھی’ ساتھ ہی وہ بہت ہی سادہ بھی تھا’ استاد کی یہ بات سن کر وہ مدرسے کے اندر داخل ہوگیا اور گدھا ایک طرف باندھ کر بیٹھ گیا تاکہ اس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم میں خلل نہ پڑے۔ استاد صاحب نے بھی اسے دیکھا اور سوچا کہ یہ شخص کسی خاص مقصد سے ہی آیا ہو گا ‘ اس لیے بچوں کو پڑھانے کے بعد وہ گدھے والے کی جانب متوجہ ہو گیا اور آنے کا مقصد پوچھا’ تو کمہار نے کہا : آپ نے ابھی ایک بچے سے کہا کہ اس کی جگہ کوئی گدھا بھی ہوتا تو میں اسے انسان بنا چکا ہوتا ‘ میری بھی کوئی اولاد نہیں ہے’ بس لے دے کے یہی ایک گدھا ہے’ آپ مہربانی کر کے اسے انسان بنا دیں تو مجھ پر احسان ہو گا’ میری آخری عمر سنور جائے گی۔ استاد زچ ہو کر، اس نے کمہار کو گدھا اس کے پاس چھوڑنے اور ایک سال بعد آنے کا کہا۔ استاد خود بھی غریب آدمی تھا ۔ وہ گدھے کو گھاس وغیرہ کھلانے کی بھلا کیا طاقت رکھتا تھا۔ اس نے گدھے کو فروخت کر کے جان چھڑا لی کہ چلو سادہ آدمی تھا اس کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کا کیا ہے’ خود ہی بھول بھال کر خاموش ہو جائے گا۔ دن گزرتے رہے اچانک ایک سال بعد کمہار آن ٹپکا اور اپنے گدھے کے انسان بنانے کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے استاد سے اپنے سابقہ گدھے اور حال انسان واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو استاد بے چارے کے حواس گم ہو گئے۔ اس نے کمہار کوانتظار کرنے کاکہہ کر اس وقت کی کلاس پڑھاتے ہوئے سوچنا شروع کر دیا کہ اب اس شخص سے جان کیسے چھڑائی جائے ‘ آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور جب بچے رخصت ہو گئے تواستاد صاحب نے کمہار سے کہا کہ تم نے ذرا دیر کر دی ‘ تمہارا وہ جو گدھا تھا ‘ اسے پڑھا لکھا کر میں نے انسان بنا دیا ہے اور اس وقت وہ عدالت میں بطورقاضی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ اس کے پاس آسانی سے نہیں پہنچا سکتا’ بس تم اسے بھول جائو اورواپس اپنے گائوں چلے جائو’ مگر کمہار کہاں ماننے والا تھا ‘ اس نے اپنے گدھے کو انسان بنانے کے لیے بڑی قربانی دی تھی’ وہ سیدھا قاضی کی عدالت پہنچا اور اندر جا کر مختلف مقدمات کی پیشیوں کو دیکھتے ہوئے قاضی صاحب کے فیصلوں کی دل ہی دل میں داد دیتا رہا کہ دیکھو اس کے سابقہ ”گدھے” کو استاد نے کتنا عقلمند انسان بنا دیا ہے’ بہرحال جب تمام مقدمات کی شنوائی مکمل ہوئی تو قاضی نے کمہار سے پوچھا ‘ آپ کا کیا مقدمہ ہے’ کمہار نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا اور کہا کہ مجھے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ‘ قاضی صاحب کو سارا بات سمجھ آگئی اور اس نے کمہار کو کچھ رقم دے کر رخصت کر دیا اور مدرسے کے استاد کو اگلے روز بلوا کر تنبیہ کی کہ آئندہ ایسے الفاظ منہ سے مت نکالا کرو کہ اپنے ہی الفاظ میں پھنس جائو۔ خیر یہ توایک بہت پرانی کہانی ہے اور ایسی کہانیوں کا مقصد صرف اور صرف بچوں کے ذہنوں میں جھوٹ سے نفرت ‘ غلط بیانی سے احتراز کا سبق راسخ کرنا ہوتا ہے’ جب کہ موضوع زیر بحث کے حوالے سے جو لوگ ملک میں ایک لاکھ گدھے بڑھنے کی خبر سے مذاق پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کو خبر کے دوسرے حصے پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایک لاکھ گدھوں کے مقابلے میں دیگر جانوروں کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو نے کے باوجود وہ اس بات کا تذکرہ کیوں نہیںکرنا چاہتے؟ ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں گدھے کی بے چارگی ‘ اس کی بے وقوفی ‘ ضد ‘ ہٹ دھرمی وغیرہ کی صفات ہوں ‘ جب کہ پشتو میں گدھے کی ضد کے حوالے سے ایک ترکیب ”خرہ خپہ” بہت مشہور ہے’ یعنی گدھے کو اگر کوئی آگے کھینچے تو وہ اڑ جاتا ہے اور اس کے پائوں جیسے زمین میں دھنس جاتے ہیں یعنی ایک انچ آگے بڑھنے کو تیار نہیںہوتا’ یہ الگ بات ہے کہ حضرت انسان بھی بہت کائیاں ہے اور وہ گدھے کو آگے بڑھنے پر مجبور کرنے کے لیے اسے اپنی جانب کھینچتا ہے’ خصوصاً جب گدھے کو دریا پار کرانے کے لیے کشتی میں سوار کرایا جاتا ہے تو اس کی پشت کشتی کی جانب کر کے اپنی جانب کھینچا جاتا ہے تووہ ”بیک فٹ” پرچلتے ہوئے الٹی سمت سے کشتی میں سوار ہو جاتا ہے۔ گدھے کی بے وقوفی کے بہت سے قصے مشہور ہیں اور فارسی کا یہ شعر تو اپنی مثال آپ ہے کہ
خر عیسیٰ اگر یہ مکہ رود
چوں بیاید ہنوز خرباشد
اس لیے ملک میں ایک لاکھ گدھوں کے اضافے پرپرانے زمانے کے حوالے کے مطابق تو خوش نہیں ہونا چاہیے تاہم نئی ایجادات کے حوالے سے جن کے مطابق گدھوں کی کھالوں سے چین میںمختلف بیوٹی لوشن اور کریم وغیرہ بنائی جاتی ہیں ‘ خوشی کے اظہار کا جواز تو یہ بنتا ہے اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے تو صوبے کے ایک سابقہ حکومت کے دوران چین کے ساتھ گدھوں کی تجارت کا ایک معاہدہ بھی طے ہوا تھا۔ خدا جانے وہ معاہدہ اب بھی برقرار ہے یا ختم ہو چکا ہے تاہم اگر اتنے گدھوں کو قدیم کہانی کی طرح انسان بنانے کی خواہش نے جنم لے لیا تو پھر کیا بنے گا؟ حضرت رحمن بابا نے بھی تو کہا تھا ناں کہ
دکعبے پہ بزرگئی کے سہ شک نیشتہ
چرے خربہ حاجی نہ شی پہ طواف بیت اللہ

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش