4 403

قبائل کی داد رسی

ضم شدہ قبائلی اضلاع کے نصف کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے اور اس سلسلے میں انکو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے وہ سنہرے خواب پچھلے تین برسوں کے دوران نہ صرف چکنا چور ہو چکے ہیں بلکہ انضمام کے بعد ہرگزرتا دن قبائل کے لیے نہ صرف انتہائی بھاری ثابت ہو رہا ہے بلکہ قبائل کے مسائل میں ہونے والے اضافے سے انہیں انضمام کے بعد اپنا مستقبل دن بدن انتہائی تاریک بھی دکھائی دے رہا ہے۔ دراصل پچھلے تین سالوں کے دوران بالخصوص اور انضمام سے قبل بالعموم قبائل کوانضمام کے حوالے سے جو خوشنما مناظر دکھائے گئے تھے اور انکے ساتھ قبائلی اضلاع میں دودھ اور شہد کے نہر یں بہانے کے جو وعدے کیئے گئے تھے ان میں اسے اب تک ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہو سکا ہے جس سے قبائل بالخصوص یہاں کے نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی کا بڑھنا ایک فطری امر ہے۔انضمام کے وقت قبائل کے ساتھ سب سے بڑا وعدہ یہاں ایک بڑے اقتصادی انقلاب کا کیا گیا تھا ‘جس کے مطابق قبائلی اضلاع کو ہر سال تعمیر وترقی کے لئے دس سالوں تک 100 ارب روپے کی فرا ہمی کا وعدہ سر فہرست تھا ‘لیکن اب تین سال بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ انکشاف حیران کن ہے کہ سالانہ 100ارب روپے کی فراہمی میں تین صوبے یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان رکاوٹ ہیں۔ اگر اس حکومتی موقف کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس اختلاف کو ختم کراناآخر کس کی ذمہ داری ہے۔کیا حکومتی حلقے اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ وفاقی حکومت ریاستی سطح پرہونے والے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کی نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ اس حوالے سے دیگر وفاقی یونٹوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا بھی وفاقی حکوت کی قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ حکومتی حلقوں کے جانب سے یہ موقف اپناناکہ تین صوبے قبائلی اضلاع کو وعدہ شدہ 100 ارب روپے کی ادائیگی میں رکاوٹ ہیں، واضح رہے کہ اس بات کا انکشاف صوبائی وزیر انورزیب خان نے گذشتہ دنوں میڈیاکوایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ قبائلی اضلاع کو وعدے کے مطابق 100 ارب روپے سالانہ کے فنڈز دینے کی راہ میں تین صوبے رکاوٹ ہیں ‘جو این ایف سی ایوارڈ میں انضمام کی آئینی ترمیم کے تحت قبائل کی تعمیر وترقی کے لیے تین فیصد حصہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں’ جس کا خمیازہ بے چارے قبائل کو بے پناہ مسائل اور مشکلات کی صورت میں برداشت کرناپڑ رہا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ قبائل جو پہلے ہی سے بے پناہ مسائل اور اقتصادی بد حالی سے دو چار تھے انکے ساتھ پچھلی دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا ‘اسکے نتیجے میں پوری قبائلی پٹی شدید دباؤ اور اضطراب سے دوچار ہے۔ ان بیس سالوں میں ایک پوری نسل جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ چکی ہے یہ وہ نسل ہے جس نے اپنے گھروں،حجروں، مساجد اور تعلیمی اداروں سے دور رہ کر خانہ بدوشی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو نہ صرف تعلیم سے دور رہ کر جوان ہوئی ہے بلکہ اسکے مزاج میں ایک عجیب قسم کی کرختگی اور ناراضگی کے عنصر کو بھی ہر کوئی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ در اصل قبائل کی زندگی کے یہ گذشتہ بیس سال وہ تلخ ایام ہیں جن کا مداوا شاید زندگی بھر نہیں ہوسکے گا۔ انضمام کے وقت قبائل کے ساتھ کئے جانے والے وعدوں کی تکیل میں تاخیر اور انکے ساتھ روا رکھے جانے والے سوتیلے سلوک کی وجہ سے قبائل میں جو لاوا پک رہا ہے ‘اس کی ایک معمولی جھلک گذشتہ دنوں انضمام کے تین سال مکمل ہونے کی مناسبت سے جمرودضلع خیبر میں منائے جانے والے یوم سیاہ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ انضمام کے اثرات بتدریج سامنے آئیں گے اور بحیثیت مجموعی اس کا زیادہ تر فائدہ آنے والی نسلوں کے حصہ میں آئے گا ‘لیکن ایک اوسط درجے کی عقل رکھنے والا شخص بھی اس حقیقت کو جان سکتا ہے قبائل پچھلی سات دہائیوں کے دوران جن مصائب اور مشکلات سے دوچار رہے ہیں اور انکے ساتھ قیام پاکستان کے وقت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے جو وعدے کئے تھے اور قیام پاکستان کے بعد قبائل نے پاکستان کے تحفظ اور مغربی سرحدوں کے دفاع میں جو کردار ادا کیا ہے ‘اس کا نتیجہ قبائل کو زندگی کے مختلف شعبوں میں سہولیات اور مراعات کی شکل میں سامنے آنا چاہئے تھا ‘لیکن اب وفاق اور دیگر تین صوبوں کی جانب سے قبائل کو این ایف سی ایوارڈ میں وعدہ شدہ تین فیصدحصے کی ادائیگی میں جس لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے ‘اس سے نہ صرف قبائل کے زخموں پر نمک پاشی ہو رہی ہے بلکہ اس غیر مفاہمانہ بلکہ منتقمانہ رویئے سے قبائل کے احساسات بھی بری طرح مجروح ہورہے ہیں ۔لہٰذا توقع ہے کہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں بشمول ریاست کے تمام سٹیک ہولڈر زقبائل کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے نہ صرف انکی داد رسی کریں گے بلکہ آنے والے بجٹ میں قبائلی علاقوں کی فلاح و ترقی کے لئے وعدے کے مطابق طے شدہ حصہ بھی مختص کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت