p613 387

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

وزیر اعظم عمران خان کی منظوری کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے حکومتی ترجمان کا یہ استدلال عجیب ہے کہ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اوگرا کے مجوزہ اضافہ سے کم اضافہ کرکے عوام کو ریلیف دیا جو گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہ ہوا کے مصداق ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اوگرا سمری تیار کرتے وقت ہی گنجائش ضرور رکھتی ہے اور حکومت اوگرا کی سفارشات سے کم اضافہ کرکے عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ کرتی ہے یہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔حکومتی ترجمان جس طرح کا استدلال پیش کر رہے ہیں وہ عوام کا مذاق اڑانا ہی قرار پاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں مگر عوام پر الٹا احسان جتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے ان کو ریلیف دی ورنہ اضافہ اتنا نہیں اتنا ہونا تھا عوام کومعلوم ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ وزیر اعظم نے مسترد نہیں کیا بلکہ اس کی منظوری دی ہے سیدھی سی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی ہے حکومتی نقطہ نظر کے مطابق اوگرا تجویز کے مطابق پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے کیے جانے والے اس فیصلے کے نتیجے میں پڑنے والا بوجھ حکومت خود برادشت کرے گی جبکہ درحقیقت ایسا نہیں اور یہ صرف دعویٰ ہے حکومت کا اس میں بھاری منافع کا حصہ مسلمہ ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کیا ہو گاکوئی مشکل سوال نہیں سب کو معلوم ہے کہ مہنگائی بڑھے گی۔ اس سے قبل کی صورتحال یہ ہے کہ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں دس سے پندرہ روپے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ایک روز میں چینی کی سو کلوگرام کی بوری کی قیمت 200 روپے بڑھ گئی۔ تھوک کی قیمتوں میں فی کلو دو روپے کا یہ اضافہ صارف تک پہنچتے پہنچتے پانچ سے دس روپے تک بڑھ جائے گا۔ حکومت نے چینی کی قیمت85روپے فی کلو مقرر کی مگر یہ قیمت فروخت صرف سرکاری نرخنامے تک محدود ہے۔اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نئے مالی سال اور بجٹ سے جڑے ہوئے مظاہر ہیں۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے یقین دلایا جارہا تھاکہ بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پراثر نہیں پڑے گا مگر معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور بجٹ کے بعد مہنگائی کی لہر کا آغاز ہی عام آدمی کی ضرورت کی اشیا سے ہورہا ہے۔ اس پر مستزاد یوٹیلٹی سٹورز پر آٹا چینی اور گھی کی نایابی ہے یعنی عام آدمی کے لیے آسانی کا یہ باب بھی بند ہو چکا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا گیا ہے جو یقینا عوام کے مالی معاملات کو متاثر کرے گا خصوصاً کم آمدنی والے طبقے کے مالی وسائل پر اضافی بوجھ کا سبب بنے گا۔ حکومتی عہدیدار تیل کی قیمتوں کا تعلق عالمی منڈی کے ساتھ جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا مگر قیمتوں میں اضافے کا اصل سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں نہیں بلکہ تیل پر حکومتی محصولات ہیں۔جون میں عالمی منڈی میں تیل کی اوسط قیمت 73 ڈالر رہی جبکہ جولائی میں یہ 75 ڈالر کے قریب ہے اور تیل کی معیشت پر نظر رکھنے والے حلقے مستقبل قریب میں عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو عوام کو اس کا کون سا فائدہ ملتا ہے؟ پٹرولیم مصنوعات کو قابلِ برداشت حد میں رکھنے کیلئے ان پر عائد بے جا محصولات کو کم کرنا ہوگا۔ حکومت نے اپنا ریونیو بڑھانے کیلئے اگر تیل پر عائد ٹیکسز کو اسی طرح رکھا تو عوام کیلئے توانائی کا بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ بجٹ کے بعد قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اور اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے نتائج کیا ہوں گے یہ نوشتہ دیوار ہے لیکن لگتا ہے کہ حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں موجودہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں جس طرح ناکام ہو چکی ہے وہ ایک الگ بحث ہے اس دور میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو بے تحاشا اضافہ ہوتا گیاوہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ حالیہ اضافہ سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی حکومت کو یہ تجویز بھی نہیں دی جا سکتی کہ وہ آئندہ اضافہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کرے اور نہ ہی حکومت پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں کے برابر اپنے حصے کے منافع سے دستبردار ہو گی ایسے میں حکومت کے پاس یہی استدلال رہ جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے اوگرا کی سمری سے کم اضافہ کرکے عوام کو خود ساختہ ریلیف دیا ہے اس سے زیادہ کی موجودہ حکومت سے توقع ہی عبث ہے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال