”جب زیادہ بارش ہوتاہے”

گرمی کی شدت سے سب تنگ ہیں کیونکہ ایک تو گرمی زوروں کی پڑرہی ہے اوپر سے بجلی بھی نہیں’ چلیںگرمی کے دن تو بہت سخت ہیں مگر کب تک ایک دن ختم ہوجائیں گے لیکن کسے پتہ تھا کہ گرمی ختم ہوگی تو اس سے بھی سخت حالات آنے والے ہیں گرمی کا خاتمہ کرنے کے لئے ساون آئے گا مون سون کا موسم آئے گا تو ڈھیروں بارشیں ہوں گی موسم تو خوشگوار ہوجائے گا لیکن محکمہ موسمیات والے کہہ رہے ہیں کہ اب کی بار پھر سیلاب کا خطرہ ہے اور اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ اب کی بار وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور اس کے مضافات بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔خبر رساں ادارے کہہ رہے ہیں کہ ”کلائوڈ برسٹ” سے اسلام آباد میں سیلاب نے تباہی مچادی جبکہ محکمہ موسمیات کہہ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں بلکہ ہم نے اس کی پیشن گوئی پہلے ہی کردی تھی اگر یہ بات تھی تو شہر اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں نے پھر کچھ کوتاہی برتی ہوگی تاہم اسلام آباد کی سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کو یہ سیلابی ریلا تنکوں کی طرح بہا کر لے گیا۔ یہ بات اگر کسی چھوٹے صوبہ یا دیہات کی ہوتی تو کچھ بات بھی تھی کیونکہ یہ تو معمول کی بات ہے اور برس ہا برس سے ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے مگر وفاقی دارلحکومت میں ایسا پہلی بار سنا ہے۔ سماجی تنظیموں نے تیاری کے طور پر کشیاں بنانی شروع کردی ہیں حکومت کا کام اطلاع دینا ہے اور وہ بھرپور انداز میں دی گئی۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ خیر کرے اور اب کی بار قدرت ہمیں تباہی سے بچائے کیونکہ ہم ابھی پچھلی تباہی کے حالات سے نہیں نکلے۔ہمارے صوبہ کا انفرا سٹرکچر تہس نہس کرکے رکھ دیا تھاجس سے ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی تھی۔حکومت اور امدادی کاروائیاں کرنے والوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سے شروع کریں۔ سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں ‘ سکولوں ‘کالجوں حتیٰ کہ ہسپتالوں اور بس اڈے تک برباد ہوئے تھے ۔ مون سون کی اطلاع تو ملی تھی مگر یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ سب کچھ سیلاب کی نذر ہوجائے گا۔ نقصانات کا تخمینہ لگانا ہے اور پھر بیرون ملک اور وفاق سے ملنے والی امداد کے بعد انفراسٹرکچر کو دوبارہ سے بحال ہونے کا عندیہ دیا گیا تاہم ماضی کی طرح اب کے بھی وعدے صرف وعدے ہی رہے ۔
ماضی میںپاکستان میں آنے والے سیلاب کو ایک عرصہ بیت جانے اور وفاقی حکومت باربار اعلانات کہ ہمیں بیرونی امداد نہیں ملی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شبانہ روز محنت کرتے رہے ہیں کہ اقوام ِمتحدہ اور دوست ملک مصیبت کی اس گھڑی میں ہماری امداد کرنے کے اعلانات کرچکے ہیں لیکن ابھی تک کچھ خاص رقم ملنے کی اطلاع نہیں ہے۔ اقوام عالم سے بھرپور امداد کی اپیل کی تھی اور انہوں نے اس عہد کو باربار دہرایا بھی ہے کہ دوست ملک پاکستان کے سیلاب زدگان کی دل کھول کرامدادکریں لیکن ان اپیلوں کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔کچھ دوست ممالک نے حکومت پاکستان کو براہ راست امداد دینے سے بھی معظرت کرلی ہے کیونکہ انہیں ہماری حکومتوں پر اعتماد نہیں کہ امداد کو حقداروں کو پوراپورابانٹیں گے یا خرد برد کرلیں گے اس بات کا اعتراف ہماری جمہوری حکومت کے سربراہان بھی برملا کرچکے ہیں۔انہوں نے تو درخواست کی ہے کہ امداد ساری کی ساری ان کی حکومت کو دی جائے اور فلاحی اداروں ‘ غیرسرکاری تنظیموں کو نہ دی جائے بقول وزیراعظم کے یہ تنظیمیں 75%(دوتہائی) کھاجاتی ہیں دوسری طرف امداد دینے والوں کا پاکستان کی حکومتوں کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کا خیال ہے۔
اب کون سچا ہے اور کون جھوٹا اس کا اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے اور اگر اندازہ لگابھی لیا جائے تو اس کا اظہار اس سے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ لوگ اپنوں کونوازنے کے ماہر ہیں اور ان کے ”اپنے” امداد یا سہولیات نہ ملنے پر نہ صرف حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں بلکہ ان کے خلاف بولنے والوں کے بھی سرمنڈواکر اور مارپیٹ کر گھر کے باہر پھینک جاتے ہیں ۔
میں بحیثیت کالم نگار کے اپنا کام کرتا رہا ہوں اور میں نے بارہا اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے کہ آسمانی آفات سے کسی نہ کسی طور نبٹ ہی لیا جاتا ہے لیکن زمینی گھپلوں کا حل نہ تو کوئی حکومت نکال سکی ہے نہ حکومتی اور نہ ہی کسی اور کے پاس اس کا حل ہے۔لے دے کر ہم پھر اللہ کے دربار میں حاضری دیتے ہیں کہ وہ بہتر کارساز ہے جب عذاب اس کی طرف سے آیا ہے تو وہی کچھ حل بھی کرے گا انسان تو انسان کا گوشت نوش کر کھانے کی فکر میں رہتا ہے اسے کیا پڑی کہ بے سہارا لوگوں کی مدد کرتا پھرے۔اور اگر امداد آبھی جائے تو کچھ ناعاقبت اندیش راستے میں ہی اسے پار کرلیتے ہیں کچھ سیاست دان اگر شامل ہیں تو این جی اوز بھی اپنا کام کررہی ہیں۔ حکومت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ دریائیوں کے کنارے رہنے والے لوگ محفوظ مقامات کی طرف چلے جائیں اور خاص طور پر دریاکے باکل ساتھ گھراور چوبارے بالکل نہ بنائیں دریا میں پانی کی سطح کو خودبھی دیکھتے رہیں اور گاہے بگاہے حکومت کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کو بھی غور سے سنیں ۔کیونکہ ہم سب نے سن رکھا ہے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ بارش آتا ہے یوں زیادہ تباہی مچاتا ہے لہٰذا ہمیں صرف حکومت پر نہیں رہنا چاہئے بلکہ خود بھی کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا