محرم الحرام اور امیرالمومنین کی یادیں

یکم محرم الحرام کو پاکستانی قوم نے یوم شہادت امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی چھٹی منائی۔پاکستان عالم اسلام کا واحد ملک تھا جہاں اس دن چھٹی تھی۔ باقی کسی ملک سے کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی کہ وہاں پر عام تعطیل ہے ۔ یکم محرم الحرام اسلامی تقویم کا پہلا دن اور مہینہ ہے اور ہم سال کی ابتداء ہی چھٹی سے کرکے آنے والے دنوں میں مزید چھٹیوں کے لئے میدان ہموار کر لیتے ہیں۔ چند دن بعد چودہ اگست کی چھٹی ہے اور متصل یوم عاشورہ کی دوتین چھٹیاں ہوں گی اور ویسے بھی عام طور پر محرم الحرام کے مہینے میں غم واندوہ کے سبب ہمارا دل کام میں لگتا نہیں۔ اس پر مستزاد محرم الحرام کے ابتدائی دس دن یوم عاشورہ کے لئے انتظامات میں بھی مصروف ہو جاتے ہیں۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں موسم گرما ‘ سرما ‘ بہار ‘ اتفاق ‘ عاشورہ ‘ عیدین ‘ یوم آزادی اور اب خیر سے کورونا کے سبب چھٹیاں ملا کر بمشکل ہی سال بھر میں کہیں تین چار مہینے تعلیمی سرگرمیاں اور دفاتر کے کام کاج ہوتے ہوں گے ۔ورنہ باقی خیر صلا ہی لگتا ہے اورہاں ‘ یہ یکم محرم الحرام کی چھٹی بھی تو ہم لوگوں نے حکومت سے بزور ہی منظور کروائی ہے اس کے پیچھے پاکستان میں وہی مذہبی کھینچا تانی ہی کے اثرات کارفرما نظر آئے تھے۔
ویسے اس حوالے اپنی حقیر سی رائے ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ ہویا اسلامی تاریخ ‘ جتنے اہم واقعات ہیں ان کے حوالے سے چھٹی منانا و منعقد کرنا کسی طورپر مناسب نہیں بلکہ چاہئے تو یہ کہ ان ایام پر سکولوں ‘ کالجوں اور جامعات کے علاوہ پورے ملک میں بیداری کی ایک ایسی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ نئی نسلوں کو اپنی تاریخ کے ان اہم واقعات سے بھر پور آگاہی حاصل ہو جائے ۔ ورنہ کوئی سروے کروالے کہ نئی نسل میں سے کتنوں کو 23مارچ ‘ چھ ستمبر یکم محرم الحرام اور یوم عاشورہ کی تاریخی اہمیت اور پس منظر سے واقفیت حاصل ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کم ازکم تعلیمی اداروں میں ہماری تاریخ کے ان اہم ایام وواقعات سے پروگرامات ‘ سیمینارز اور جلسے جلوس برپا کئے جائیں تاکہ نوجوان نسل کو ان واقعات کے تقدس سے آگاہی کے علاوہ ایک جذبہ محرکہ بھی حاصل ہو۔مثلاً پورے پاکستان میں میڈیا کے ذریعے سروے کرایا جائے کہ حضرت عمر فاروق کی شخصیت ‘ سیرت اور دینی خدمات کے حوالے سے کتنوں کوکتنی معلومات حاصل ہیں اسلامی تاریخ کو ہمارے نصاب سے خارج کیا ہی تھا اب تو ہماے نوجوانوں معماران پاکستان علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل نہیں ہیں کیا حکومت ‘ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان اہم ایام پر صرف چھٹی منانے کی بجائے کوئی تعمیری سرگرمی بھی انجام دی جائے ۔ آیئے اس حوالے سے آج کی اس نشست میں امیر المومنین کی دلگداز یادوں میں سے چند ایک کو تازہ کر لیتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق عالم اسلام کی وہ شخصیت اور خلیفہ دوم ہیں جو امیر المومنین کہلائے ۔ آپ نے دس برس خلافت کی خدمات سرانجام دیتے ہوئے تقریباً تئیس لاکھ مربع میل علاقے پر اسلامی ریاست قائم کی۔ اپنے وقت کے دو سپر پاورز اہل روم اور اہل فارس کوشکست فاش دے کر شام سے ایران تک کے علاقے اسلامی مملکت میں شامل کئے ۔آپ کے دور حکومت کاعدل و ا نصاف تاریخ انسانی میں بے مثال ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو عبقری(کمال کا ذہن) کا خطاب فرمایا۔ لیکن آپ کا مشہور لقب فاروق(حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کے حوالے سے نادر روزگار) ہے ۔ آپ کے تقویٰ اور حضورۖ سے محبت اور عقیدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات پر اس واقعہ ناجعہ کودل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ آپ کے تقویٰ ‘ فراست اور عدل و انصاف ہی کے سبب آپ کے حوالے سے خاتم النبین ۖ نے فرمایا۔۔۔ ”میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے”۔
اپنی شہادت سے چند دن پہلے زمین پرلیٹ کر اپنے پروردگار سے ان ا لفاظ میں التجا کی ” پروردگار ‘ میں اب قوت جسمانی اور صلاحیتوں کے لحاظ سے کمزور پڑ رہا ہوں ‘ اس لئے ریاست اسلامی کی بھاری ذمہ داریاں شاید مزید کماحقہ اٹھا نہ سکوں ‘ لہٰذا مجھے اپنے پاس بلا لیں۔26تا 27 ذالحجہ کو مجوسی یعنی فیروز لولو دو دھاری خنجر لے کر صبح کی نماز میں پہلی صف میں کھڑا ہوا۔ امیر المومنین جونہی امامت کے لئے کھڑے ہوئے ‘ اس بدبخت شقی القلب نے پے درپے چھ وار کئے جس کے نتیجے میں امیر المومنین گر گئے ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے مختصر سورتوں کے ساتھ نماز ادا کروائی اور پھر حضرت عمر فاروق کوسنبھال کر گھر لے جایا گیا۔ آپ کا صبر ‘ ا ستقامت او حوصلہ وہمت دیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ زخمی ہونے کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ مجھے کس نے مارا؟ جب فیروز مجوسی کا بتایا تو فرمایا ‘ شکر ہے کہ کسی مسلمان نے یوں نہ کیا۔۔ ابوفیروزلولو نے چند دن قبل جو الفاظ امیر المومنین سے کہے تھے اس پر آپ نے دو آدمیوں کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ یہ شخص مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے گیا ہے ‘ لیکن بہادری اور ایمان باالتقدیر ملاحظہ کیجئے کہ کوئی سکیورٹی تب بھی نہیں لی۔ آپ یکم محرم الحرام کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے لیکن آپ کے کارہائے نمایاں اسلامی تاریخ کا درخشاں باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آپ نے اپنے قاتل کے بارے میں جوسوال کیا تھا اس میں جو اشارہ تھا ‘ اس کا اندازہ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے موقع سے کیا جا سکتا ہے وہ دن آج کا دن مسلمان ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے ہیں اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ا غیار مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہے ہیں ۔اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی