Shazray

شرپسند عناصر کو معاف نہ کیا جائے

پشاور میں غیرقانونی طورپرمقیم اور پاکستان مخالف مظاہرے کرنے اور سڑکیں بند کرنے کے الزام کے تحت گرفتار 120 سے زائد افغان باشندوں کے کوائف اور ریکارڈ اکٹھا کرنے کے لئے حساس اداروں کو مراسلہ جامع تحقیقات کے عمل کے لئے ضروری امر تھا۔اب ان افراد کی دستاویزات کی جانچ پڑتال سے رپورٹ موصول ہونے کی روشنی میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان افراد کے صرف دستاویزات کی جانچ پڑتال کافی نہیں بلکہ ان کے ماضی و حال کی سرگرمیوں سمیت تمام وابستگیوں کے حوالے سے جامع معلومات اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے جس کی روشنی میں ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے ۔ ان افراد کو ملک بدر کرنا کافی نہ ہو گا اور اگر حکام کا فیصلہ یہی ہو تو پھر چودہ اگست کو یوم آزادی کے جلوس میں شامل ہوکر افغانی جھنڈا لہرانے والوں ڈیرہ اسماعیل خان میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سمیت اس طرح کے تمام افغان باشندوں کو سرحد پار دھکیلنے کی ضرورت ہوگی جو پاکستان کے حوالے سے معاندانہ رویہ رکھتے ہیں اور ہر اس سرگرمی میں پیش پیش ہوتے ہیںجس میں پاکستان کے لئے مشکلات کا پہلو نکلتا ہو ان عناصر کی بعض ملکی تنظیموں سے بھی روابط اور ایک خاص نظریے کے حامل ہونے کی بھی چھان بین ضروری ہے حکومت کو اس طرح کے عناصر کے خلاف سنجیدہ رویہ اپنائے اور تطہیر کا عمل شروع کرنا چاہئے اور یہی اس کا مناسب وقت بھی ہے۔
عزم صمیم ہو تو کام مشکل نہیں
شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تجاوزات مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت احیائے پشاور منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پورے پشاور میں ایک ساتھ تجاوزات کیخلاف آپریشن شروع کیا جائے گایہ پہلی مرتبہ نہیں کہ شہر کوتجاوزات سے پاک کرنے کی ٹھان لی گئی ہے بلکہ وقفے وقفے سے یہ دعوے معمول ہیںہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی دارالحکومت میں تجاوزات کے خلاف حقیقی آپریشن دو ادوار میں ہوئی تھی ایک اس وقت جب ملک سعد شہید بلدیہ کے ایڈ منسٹریٹر تھے جبکہ دوسراکارنامہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں سرانجام دینے کی سعی کی گئی لیکن موخرالذکر دور میں اس مہم کو بوجوہ انجام تک پہنچایا نہ جاسکا اس کے باوجود شہر کو بڑے تجاوزات سے پاک کردیا گیا تھالیکن دھیرے دھیرے رفتہ رفتہ حسب معمول تجاوزات قائم ہونے لگیں اور اسی دور حکومت ہی میں تجاوزات کی بھر مار ہوگئی تھی جس میں اضافہ آج تک جاری ہے صورتحال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں قانونی تجارت مشکل ہوتی جارہی ہے قابض تاجروں کو نہ تو ٹیکس دینا پڑتا ہے اور نہ ہی کرایہ اور بجلی وگیس وٹیلیفون کے بل کے اخراجات ہوتے ہیں بس پولیس،ٹریفک پولیس اور بلدیہ کے اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہوگی حکومتی ادارے ویسے بھی مصلحت اور خفتگی کا شکار ہیں جس کے باعث صوبائی دارالحکومت کا حلیہ بگڑ گیا ہے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو فوکل پرسن مقررکرکے تجاوزات کے خلاف منظم مہم کا عملی تقاضا یہ ہو گا کہ دبائو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اورکسی مصلحت کا شکار نہ ہوا جائے بلا امتیاز کارروائی تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کو تجاوزات سے پاک نہ کیا جا سکے۔
سابق بھارتی سفیر کا کڑوا سچ
سابق بھارتی سفیر راکیشن سودنے ایک انٹرویو میں مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے پیش نظر متبادل پلان نہ ہونے پر بھارت نے منہ کی کھائی ‘برسوں کی محنت بے کار گئی پاکستان کا خطے میں اثرورسوخ بڑھا اور ہماری نااہلی کی وجہ سے اب ہماری سرحدیں بھی محفوظ نہ رہیں ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے کچھ مفادات ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ وہاں سفارتخانے میں کام کرنے والے اور دیگر ہندوستانیوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائے ۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھارت کے سابق سیکورٹی افسران ‘ سیاستدان اور تجزیہ کار بھی اب بھارت کی افغانستان میں ناکامی پر شور مچا رہے ہیں ‘ تاہم کابل میں بطور سفیر کام کرنے والے سابقہ اہم عہدیدار نے بھارت کی حکمت عملی کو جس طرح بے نقاب کیا ہے اس سے بھارت کو سبق لینا چاہئے اور پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے توبہ کر لینا چاہئے۔
قواعد و ضوابط کا تکلف بھی کس لئے؟
محکمہ بلدیات کی جانب سے خیبر پختونخوا میں نجی ہائوسنگ سوسائٹیز کیلئے کم سے کم اراضی کی شرط 160کنال کو ختم کرنے کے عمل سے ہی واضح ہے کہ قانون میں ترمیم کس کے مفادمیں ہے اس وقت لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق صوبہ بھر میں کسی بھی نجی ہائوسنگ سوسائٹی کیلئے کم سے کم اراضی 160 کنال ہونا لازمی ہے اور اس سے کم اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹی قائم نہیں کی جا سکتی۔اب کم سے کم اراضی کی شرط قواعد و ضوابط میں طے کی جائیگی اور قانونی طور پر عائد شرط کو ختم کردی جائیگی۔ مجوزہ ترمیم سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی اور جس کا دل چاہے جہاں چاہے چند مرلوں پر بھی ہائوسنگ سکیم کے نام پر عوام کو باآسانی دھوکہ دیا جا سکے گا قطعہ اراضی کی مقررہ شرط میں نرمی کے بعد باقی جتنی بھی شرطیں رکھی جائیںاسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں قانون اور قواعد و ضوابط بااثر عناصر کے لئے موم کی ناک کے مترادف ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں۔ پہلے ہی ایک سوساٹھ کنال قبرستان ‘ پارک ‘ مسجد ‘ کمیونٹی سنٹر او ردیگر شہری سہولیات کے بغیر چھوٹے چھوٹے قطعہ اراضی پر ہائوسنگ سکیمز بنی ہوتی تھیں اور کم سے قطعہ اراضی کی پابندی نہ تھی اب تو ایسا سوچنا بھی محال ہے عوام کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے اس کا قانون سازوں کو ہی علم ہو گا۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار