Idhariya

افغانستان پھر بارود کے دہانے پر

امریکی اور اتحاد ی ا فواج ابھی کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور طالبان نے ا گرچہ حکومت سازی نہیں کی ہے لیکن سکیورٹی کی ذمہ داری بہرحال انہوں نے سنبھال رکھی ہے یوں روایتی اور غیرروایتی دونوں حفاظتی انتظامات اور دومختلف دشمنوں کی قربت کے باوجود کابل میں بدترین دھماکے اور تیرہ امریکی فوجیوں اٹھائیس طالبان سمیت نوے افراد کی ہلاکت کا واقعہ اس خدشے کا باعث امر ہے کہ افغانستان میں امریکا طالبان معاہدہ و مفاہمت سے امن و استحکام کی جو امیدیں وابستہ کی جارہی تھیں وہ شاید قبل ازوقت اور اندازے درست نہ ہوں ۔پاکستان کے ہمسایہ ملک کے سکیورٹی زون میں دھماکے سے پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینا وہم نہیں بلکہ ممکنہ حقیقت ہوسکتی ہیں ۔خیبر پختونخوا اور ضم قبائلی اضلاع کے عوام دودھ کے جلے ہیں اس لئے چھاچھ کی جھاگ دور سے بھی دکھائی دے تو تشویش ہونا فطری امر ہے۔کابل ائیرپورٹ پر بم دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت2011کے بعد افغانستان میں پینٹاگون کے لیے ایک دن میں ہونے والا بدترین نقصان ہے۔افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ میں اب تک 1909امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں امریکہ کا سب سے زیادہ نقصان6اگست2011کو ہوا تھا جب طالبان جنگجوئوں کی کابل کے جنوب مغربی صوبے وردک میں رات کے وقت شنوک ٹرانسپورٹ (ہیلی کاپٹر)پر فائرنگ کے واقعے میں ہوا تھا۔جمعرات کو وائٹ ہائوس میں بیان دیتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون سے کہا کہ وہ جوابی حملے کرنے کے منصوبے تیار کرے۔واضح رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری داعش خراسان کے عسکریت پسندوں نے قبول کی ہے جو پہلے شام اور عراق میں امریکی افواج سے لڑ چکے ہیں۔ امریکی صدر نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس کی تکمیل کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے اور امریکا کیا افغانستان میںداعش کی سرکوبی کے لئے کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرے گا نیز کیا امریکا اور طالبان اس مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لئے افغانستان میں کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے یا پھر طالبان امریکا کے بعد اب داعش کو کچلنے کے لئے کمربستہ ہوں گے امریکی ترجیحات بارے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ طالبان آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ سعی ضرور کریں گے بصورت ناکامی خود طالبان کی حکومت اور ان کی منوائی گئی طاقت پر بھی سوالات اٹھیں گے ۔اس دھماکے کی سی آئی اے پہلے ہی پیشنگوئی کر چکا تھا انتباہ جاری ہونے کے باوجود طالبان اور امریکی سکیورٹی فورسزکی ایئرپورٹ جیسے حساس علاقے میں خود کش حملہ روکنے اور فائرنگ کے واقعے کی روک تھام میں ناکامی سمجھ سے بالاتر امر اسی لئے ہے کہ اطلاع اور تیاری کے باوجود اس حملے کی روک تھام میں ناکامی کیسے ہوئی اس واقعے کے بعد البتہ انخلاء کے لئے ایئرپورٹ جانے والوں کی تعداد میں کمی فطری امر ہوگا طالبان اس حوالے سے ایک دن قبل ہی کہہ چکے تھے کہ مزید انخلاء روک دیا جائے جبکہ عالمی برادری کو بھی انخلاء کے عمل میں سخت مشکلات درپیش تھیں ان سوالات سے الجھن میں اضافہ فطری امر ہے ۔ ہمسایہ ممالک میں داعش کی بڑی کارروائی پاکستان کے لئے بھی آمدہ دنوں میں مشکلات کا باعث بن سکتی ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ امریکہ انخلاء سے قبل طالبان کی مدد سے داعش کا قلع قمع کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دے جاتی اور افغانستان کی سلامتی کے لئے ایک بڑے چیلنج کا مسئلہ حل کیا جاتا داعش کی صورت میں نیا جو خطرہ افغانستان کے سر پر منڈلا رہا ہے اگر اس کا مل کر مقابلہ نہ کیا گیا تو افغانستان اور خطہ ایک نئے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے جونہ صرف علاقائی ممالک کے لئے تشویش کی بات ہے بلکہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے مداخلت کاروں کے کئے کرائے پر بھی پانی پھر سکتا ہے تازہ صورتحال کاخطے کے تمام اہم ممالک اور عالمی برادری کو جائزہ لینے اور اس کا مشترکہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر خطے میں استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا شاید ہی ممکن ہو۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش