افغان طالبان

افغان طالبان کو درپیش ممکنہ چیلنجز

افغانستان میں طالبان نے حکومت سازی کیلئے صلاح مشوروں کا عمل شروع کررکھا ہے۔ وہ دنیاکو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی حکومت کے تحت خواتین اور اقلیتوں سمیت تمام افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ اگرچے طالبان مسلسل یہ یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ شریعت کے تحت خواتین کو حاصل حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ، لیکن جب خواتین کے حقوق کے حوالے سے شرعی قوانین کی بات کرتے ہیں تو بعض حلقوںکی طرف سے ان کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ عالمی برادری کو افغانستان میں دہشگردی کے نیٹ ورک کی مبینہ موجودگی اور وہاں انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے تشویش بھی لاحق ہے۔ طالبان کے نظریہ ریاست کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے لیکن اس بار طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت کی حالیہ عالمی کوششوں نے اس بار ان کیلئے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اگر افغانستان میں سب کی شمولیت پر مبنی اور متنوع سیاسی حکومت پر اتفاق رائے ہو تا ہے تو طالبان قیادت کیلئے اپنے مخصوص نظریات سے جڑا رہنا بڑا چیلنج ہو گا۔ بعض میڈیا رپورٹس میں یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ طالبان افغانستان میں امور حکومت چلانے کیلئے ایک کونسل تشکیل دے سکتے ہیں ۔ تاہم ایسی مجوزہ کونسل کی ساخت اورکام کے طریقہ کار کے حوالے سے کو واضح معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کیلئے جو کام سب سے مشکل ہوگا وہ جمہوریت کو تسلیم کرنا۔ طالبان کا نظریہ ریاست مذہبی احکام پر مبنی ہے،جو موجودہ جمہوری تصور کی نفی کرتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ طالبان انسان کے بنائے آئین اور انتخابی عمل کو نہیں مانیںگے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان کے پاس ایسا کوئی متبادل نظام موجود ہو،جو افغانوں کیلئے قابل قبول ہو ۔ اس وقت طالبان سے منسوب دو آئینی دستاویزات موجود ہیں ۔ پہلی دستاویز ” دستور امارت اسلامی افغانستان” کی ہے، جو 1998 میں اسلامی سکالروں کے گروپ نے تیار کی تھی جب طالبان برسر اقتدار تھے۔ دوسری دستاویز ”منشور امارت اسلامی افغانستان” کے عنوان سے ایک میثاق ہے، جو 2020 میں پہلی بار سامنے آئی۔ تاہم طالبان نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو یہ ان کا آئین ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں دستاویزات انتخابات یا انتخابی جمہوریت کی نفی کرتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کے مخالفین جن کے ساتھ وہ اس وقت مذاکرات کررہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر 1980 کے وہ مجاہدین شامل ہیں جنہوں نے ” اصول اساسی دولت اسلامی افغانستان” کا آئینی مسودہ متعارف کرایا تھا ۔ انتخابی شق کے سوا یہ مسودہ طالبان کے متعارف کرائے گئے مسودات سے زیادہ مختلف نہیں ۔ افغان طالبان کو جو ایک اور بڑا چیلنج درپیش ہو گا کہ وہ اپنے جنگجوئوں اور فیلڈ کمانڈروں کو کیسے ایڈجسٹ کریں ؟۔ طالبان قیادت اپنے جنگجوئوں و کمانڈروں کو چھوڑ نہیں سکتی، جو اسکی طاقت کا واحد ذریعہ ہیں۔ ایسے میں افغانستان کی مسلح افواج ممکنہ طور پر طالبان اور ریگولر فورسز پر مشتمل ہو سکتی ہیں۔ تاہم ریگولر فورسز کو کوئی نمایاں کردار نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ محض نیم فوجی دستوں کے طور پر کام کریں گی۔ تاہم مستقبل کے ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کا انحصار غیر طالبان افغان قیادت کی مذاکراتی قوتوں پر بھی ہوگا۔ اگر غیر طالبان افغان قیادت اقتدار میں اپنے حصے پر مطمئن ہو جاتی ہے اور دیگر اہم معاملات پر بات چیت نہیں کی جاتی تو پھر طالبان ایسا نظام متعارف کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو شاید زیادہ تر افغانوں کی امنگوں کے مطابق نہ ہو۔ پاکستان کے مذہبی سکالرز طالبان کے تحت افغانستان کے نظام حکومت کے حوالے سے پر جوش ہیں اور طالبان ان کے مشورے سننے کو بھی تیار ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سے مشرق وسطیٰ تک ایسی شخصیات بھی موجود ہیں جو نظریاتی اختلاف کے باوجود طالبان کو متاثر کرسکتی ہیں۔ طالبان اپنے آئین کی تیاری میں ہر اس تجویز کا خیرمقدم کریں گے جو ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو۔ افغانستان کے کچھ حصوں میں طالبان مخالف احتجاج بھی ہوا ہے جو ملک میں متوسط طبقے کے بڑھنے کی عکاسی کرتے ہیں، یقیناً یہی طبقہ طالبان کیلئے اصل ”اپوزیشن” ہوگی۔ بعض اندازوں کے مطابق افغانستان میں 2001 میں متوسط طبقے کی شرح تقریباً صفر تھی لیکن آج یہ طبقہ کل آبادی کا 15 سے 20 فیصد ہے،جو ایک خاصی بڑی تعداد ہے۔ تقریباً 50 لاکھ افغان اب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ یہ متوسط طبقہ طالبان پرکس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ طالبان کیلئے یہ بات میں بھی فائدہ مند ہے کہ ان کے پڑوسی ملکوں کے جہموری نظام کمزور ہیں اور ان کا انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ان کا مستند ریکارڈ نہیں ہے ۔ اگر یہ ہمسایہ ممالک افغانستان میں معاشی استحکام کیلئے تعاون کرتے ہیں تو طالبان آسانی سے مغربی دبائو سے نکل آئیں گے اور اسلامی امارت کا اپنا نظام قائم کرلیں گے۔ دیکھا جائے تو افغانستان میں اس وقت اعتدال پسندی اور قدامت پسندی کے رحجانات کے درمیان کشمکش چل رہی ہے اور یہ دونوں رحجانات اپنی انتہائی سطح پر ہیں۔ اب اس کشمکش میں کوئی ایک رحجان غالب آئے یا چاہے دونوں کا امتزاج ہوجائے، افغان قیادت کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی تبدیلی تشدد کا رخ اختیار نہ کرے۔(بشکریہ،ڈان،ترجمہ:راشدعباسی)

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی