Idhariya

مصلحت سے بالا ترعبوری حکومت کا قیام

افغانستان میں عبوری حکومت تشکیل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کردی گئی ہے جس کے لیے کابینہ بنائی جارہی ہے، نئی اسلامی حکومت کے قائم مقام سربراہ ملا محمد حسن اخوند جبکہ ملا محمد حسن اخوند افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ہوں گے علاوہ ازیں پوری کابینہ کے ناموں کی فہرست جاری کردی گئی ہے جس میں سرکردہ طالبان رہنما شامل ہیں اس میں قید گزارنے اور مطلوب افراد کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکی اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف سخت مزاحمت کی اور قربانیاں دیں۔طالبان ترجمان کے مطابق کابینہ کی وزارتوں کی تقسیم وم پرستی کی بنا پر نہیں بلکہ ان کے کام کو دیکھتے ہوئے کیاگیا۔طالبان کی جزوقتی کابینہ کے ناموں میں سوائے طالبان کے کسی اور طبقہ فکر اور فرد کا نام شامل نہیں حالانکہ توقع کی جارہی تھی کہ افغانستان کی عبوری حکومت وسیع البنیاد ہو گی اور اس میں مختلف طبقات اور مکتبہ فکر کے لوگوں کو جگہ دی جائے گی یہ خیال غلط ثابت ہوا اور عبوری حکومت کے عہدیداروں کے اعلان کے ساتھ ہی اس پر تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا ہے امریکا نے طالبان کی عبوری حکومت میں بعض افراد کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن کو خدشات لاحق ہیں کہ چین طالبان کے ساتھ کسی نا کسی صورت میں تعاون کی پیشکش کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چین کو طالبان کے ساتھ بعض اہم مسائل کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ کچھ انتظام کرنے کی کوشش کرے گاحالانکہ یہ طالبان کا بنیادی حق ہے کہ وہ کس ملک سے کس نوعیت کے تعلقات رکھے اور کن ممالک سے فاصلہ رکھے ماضی وحال کے تناظر میں امریکا سے دوری اور چین سے قربت غیر متوقع نہیں اور اسی پر امریکا کو تشویش ہے۔ اس دوران امریکی وزارت خارجہ نے طالبان کی نئی حکومت کے بارے میں کہا ہے کہ ابھی وہ اس کا تجزیہ کر رہی ہے۔ تاہم ایک بیان میں کابینہ میں بعض ایسے افراد کی شمولیت پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا جو ماضی میں مبینہ تشدد پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کو مطلوب رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا، ہم نے طالبان کی طرف سے اعلان کردہ فہرست میں شامل ناموں کا نوٹس لیا ہے، خاص طور پر ان افراد کے بارے میں جو طالبان کے رکن ہیں یا ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ امریکا نے افغان حکومت کی بجائے امارت اسلامی سے مذاکرات میں حرج نہ سمجھا طالبان پر حملہ آور ہونا اور طالبان کا دشمن ہونا بھی صرف نظر کیا گیا اوراب اعتراض اٹھایا جارہا ہے بہرحال طالبان کی جانب سے افغانستان کی عبوری حکومت کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے جس کا کئی ہفتوں سے انتظار کیا جارہا تھا۔نئی افغان حکومت کے عہدیداروں کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ انہیں جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ انہیں پورا کریں۔ حکومتی معاملات کو سنبھالنے میں طالبان کے چیلنجز ڈھکے چھپے نہیں۔ حکومت کا یہ جز وقتی سیٹ اپ سردست معاملات کو سنبھالنے میں تو مدد دے سکتا ہے مگر یہ واضح ہے کہ آگے چل کر مزید منصوبہ بندی کے ساتھ جامع حکومت بنانا ہو گی ، ایسی حکومت جو طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں اور وعدوں کو پورا کرتی ہوئی نظر آئے اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں ملک کے تمام کاروباری حضرات سرمایہ کاروں اور سمجھ دار افغانوں کی ضرورت ہے جو ملک کو غربت سے نکالنے معیشت کو مضبوط کرنے قومی دولت کو محفوظ کرنے اور سرکاری خزانے کو قومی مفاد میں استعمال کرنے میں مدد کر سکتے ہوں۔طالبان حکومت سازی میں عبوری حکومت میں مختلف الخیال افراد کی کسی نہ کسی درجے شمولیت مصلحت کا تقاضا تھا جسے نہ صرف طالبان نے نظر انداز کیا بلکہ اسکے ساتھ یہ تاثر بھی دیا کہ حکومت کی تشکیل ان کا حق ہے او روہ دنیا کی ترجیحات کو نہیں اپنی ترجیحات کو اولیت دیں گے۔ان کی حکومت سازی کے ساتھ ہی امریکی صدر اور وزارت خارجہ کاجو رد عمل سامنے آیا ہے وہ غیر متوقع فیصلے کا متوقع ردعمل ہے ۔ طالبان کو اس امر کا بخوبی ادراک لگتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے موقف اور حکومت سازی میں کسی قسم کی لچک اور مصلحت کا مظاہرہ کیا تو ان کی جدوجہد پر سوال اٹھے گا ان کا موقف ہی ان کی کامیابی اور متحد ہونے کا راز ہے جسے وہ دنیا کو خوش کرنے کی قیمت پر ترک کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے امریکی رد عمل اور چین کے حوالے سے جو خیالات اور امکانات ہیںاس سے طالبان کے مقابلے میں امریکی مشکلات زیادہ واضح ہیں روس کی بھی طالبان سے قربت ہے علاوہ ازیں بھی اسلامی اور خطے کے ممالک افغانستان کو معاشی طور پر مستحکم رکھنے کے خواہاں ہیں یورپی یونین کا طرز عمل بھی محتاط ہے اگر کسی کے طرز عمل میں مصلحت پسندی نہیں تو ایسا طالبان ہی کے حوالے سے نظر آتا ہے جس کے باعث امریکہ چین بجبیں ہے ۔ طالبان کا فیصلہ عالمی ممالک کے ساتھ تعلقات اور ان کے لئے خود کو قابل قبول ثابت کرنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے جس کی شاید ان کو پرواہ نہیں بہتر یہی ہوتا کہ طالبان عبوری حکومت میں معاشرے کے مختلف طبقات کو نمائندگی دیتے اورمصلحت کے تقاضے پورے کئے جاتے تو زیادہ موزوں ہوتا بہرحال اب کم از کم صوبائی سطح پر ہی ان کو کابینہ میں نمائندگی دی جائے اور مستقل حکومت کے قیام کے وقت یکطرفہ حکومت بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش