16ہزار افراد کی روز گار سے محرومی۔وزیراعظم نوٹس لیں!

دنیا کے ہر سیاسی نظام کی بنیاد انسانی فلاح کا تصور رہا ہے ۔یہ تصور مفقود ہو جائے تو نظام اندر سے کھوکھلا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بادشاہتیں جبر کا سہارا لیتی ہیں لیکن ان کی بقا اور دوام بھی رعایا کی فلاح کا مرہون منت رہتا ہے ۔جہاں بہبود کا پہلو حکمران کی ترجیح نہ رہے وہاں بغاوت برپا ہوتی ہے۔اور اقتدار کی بلندو بالا عمارت دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو جاتی ہے ۔آج دنیا کے نقشے پر وہی دو چار بادشاہتیںاپنا وجود برقرار رکھ پائی ہیں،جو جمہوری حکومتوں سے زیادہ ”بنیوویلنٹ”ہیں۔ جمہوریت کا تصور درحقیقت ظالمانہ سیاسی اقتدار کے متبادل فلاحی نظام کا تصور تھا لیکن مغربی جمہوریت کے بطن سے جس معاشی فلسفے نے جنم لیا اس نے امیر کو امیر تراور غریب کو غریب تر کردیا۔طاقتور کی بقا اور کمزورکو فنا دینے والے کیپٹل ازم نے جمہوریت سے لوگوں کو بددل کرنا شروع کردیا تو اقبال کی نگاہ تیز نے مغربی جمہوریت کے منطقی انجام کی یہ کہ کر پیش گوئی کی ۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کریگی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپائیدار ہوگا
مغربی جمہوریت کا تباہی سے دو چار ہونا آشکار تھا اگر کمیونزم سے مقابلے کی صورت نہ بنی ۔کمیونزم کی راہ روکنے کیلئے مغربی جمہوریت کو فلاحی ریاست کے تصور میں پناہ لینی پڑی اور ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ آج ریاست کا تصور ماں کے تصور جیسا ہے۔ماں جس طرح بچوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور ان کی ضرورتوں کو بلا تفریق پورا کرتی ہے ،ریاست کا کردار بھی رفتہ رفتہ ویسا بنتا جارہا ہے ۔ریاست ایک لمیٹڈ کمپنی یا کارپوریشن کی طرح کی منافع کمانے والی کمپنی نہیں ہے ۔کیونکہ کیپٹل ازم کی اپروچ اب بدل چکی ہے ۔آج ریاست اپنے شہریوں کے لیے بسا اوقات خسارہ بھی برداشت کرتی ہے لیکن انہیں سہولت دینے کی کوشش کرتی ہے ۔سبسڈی کا نظام دراصل اس سوچ کے تحت ہے کہ غریب شہریوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں سرکاری خزانے سے ریلیف فراہم کیا جائے ۔اسی طرح شہریوں کو روزگار کی فراہمی بھی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ریاست سرکاری سطح پر ایسے انتظامات کرتی ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور اس مقصد کے لیے کاروباری سرگرمیوں کوفروغ بھی دیتی ہے۔ریاست کا کام روزگار فراہم کرنا ہے روزگار چھیننا قطعاً نہیں ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت ویسے بھی روزگار کی فراہمی کے نئے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کر کے قائم ہوئی تھی۔عوام سے عہد کیا گیا تھا کہ ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں گے ۔
وزیراعظم عمران خان اس ضمن میں پہلے کی طرح اب بھی پر عزم ہیں ،چنانچہ انہوں نے معاشی استحکام کے لیے اپنی پوری تگ ودو کی ہے۔معیشت گزشتہ ادوار کی پالیسوں کی وجہ سے جس بحران کا شکار تھی اس کو سنبھالنا آسان کام نہ تھا لیکن وزیراعظم عمران خان نے نہایت جرات کے ساتھ فیصلے کئے جس کے ثمرات آج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔صنعت کا پہیہ چل پڑا ہے اور دیگر کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے ۔امید پیدا ہونے لگی ہے کہ آنے والے ماہ وسال میں روزگار کے زبردست مواقع پیدا ہونگے۔تحریک انصاف کی حکومت نے سرکاری اداروں میں خواہ مخواہ کی بھرتیاں نہیں کی ہیں۔جیساکہ پیپلزپارٹی اپنے ادوار میں کرتی آئی ہے۔ابھی حال ہی میں عدالت عظمی کے ایک فیصلے نے اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی اداروں میں 16ہزار ملازمین کی بحالی ہوئی تھی۔یہ ملازمین پیپلزپارٹی کے 1993-96کے دور میں بھرتی ہوئے تھے۔جنہیں مسلم لیگ ن نے
1997میں نکال دیا تھا۔بعد ازاں جب پیپلز پارٹی 2008میں برسراقتدار آئی تو اس نے ایک ایکٹ کے ذریعے ان تمام ملازمین کو اداروں میں بحال کردیا بلکہ ان کو بقایا جات بھی ادا کئے گئے۔2010میں بحال کئے گئے ان ملازمین کو آج گیارہ سال بعد پھر نکال دیا گیا ہے جس سے ایک انسانی المیے نے جنم لیا ہے ۔میرے خیال میں وفاقی حکومت کو عدالت کے فیصلے کے خلاف انسانی بنیادوں پر نظرثانی اپیل دائر کرنی چاہیے۔کیونکہ نکالے جانے والے ملازمین اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ وہ کوئی اور ملازمت اب نہیں کرسکتے۔یہ 16ہزار خاندانوں کا سنگین معاشی مسئلہ ہے جو بیک جنش قلم روزگار سے محروم کردئیے گئے ہیں۔انہیں کوئی گولڈن ہینڈ شیک نہیں ملا اور نہ ہی رضاکارانہ علیحدگی کے تحت کوئی معاشی بینیفٹ دیا گیا ہے۔ایک دن قبل تک وہ برسر روزگار تھے اور دوسرے روز وہ سو کر اٹھے تو ان کو خبر ہوئی کہ وہ نوکری سے فارغ ہوگئے ہیں ۔دنیا کے کسی مہذب ملک یا فلاحی ریاست میں کیا لوگ اس طرح روزگار سے محروم کردئیے جاتے ہیں ۔ان کا قصور یہ ہے کہ انہیں پیپلزپارٹی کے دور میں ملازمت ملی اور ان کے سلیکشن پراسس پر اعتراضات تھے مگر جب پیپلزپارٹی نے انہیں بحال کردیا اور بعد میں مسلم لیگ ن کے دور میں بھی اس بحالی کو تسلیم کرلیا گیا اور اب تحریک انصاف کی حکومت کو بھی اس ضمن میں کوئی مسئلہ نہیں تھا تو اچانک اس بحالی ایکٹ میں منسوخی کی کیا وجہ بنی؟اس فیصلے کے بعد 16ہزار خاندانوں کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں،کیا انصاف کا تقاضا نہ تھا کہ زمین حقائق کو مدنظر رکھ کر کوئی ایسا فیصلہ کیا جاتا جس سے یہ انسانی المیہ جنم نہ لیتا اور لوگ روزگار سے محروم نہ ہوتے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ عوام اور ریاست کے تعلق ضمن میں ہمدردی کی بات کی ہے۔میرا گمان ہے کہ وہ اس معاملے کو بھی اس تناظر میں دیکھیں گے اور حکومت پاکستان ان16ہزار خاندانوں کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اپنا حکومتی کردار ادا کرے گی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی