کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں؟

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے ‘ وقت بھی بدل چکا ہے ‘ بیانیہ بھی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے کبھی تو یوں ہوتا تھا کہ امیدوار کے سارے ووٹ ہی غائب ہو جاتے تھے ‘ بکسے خالی ملتے تھے ‘ یا پھر چوری ہوجاتے ‘ یا دن دیہاڑے کچھ لوگ زبردستی اٹھا کر بھاگ جاتے ‘ ایسا بھی ہوا کہ آر ٹی ایس بیٹھ جاتا تھا اور صورتحال ایوبی آمریت کے دور کے صدارتی انتخابات والی بھی ہو جاتی جس کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ انتخابی ووٹ کی پرچی پر ایسا کیمیکل لگایاگیا تھا جس کی وجہ سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نام کے آگے لگی چرخی اسی کیمیکل کی وجہ سے خود بخود ایوب خان کے نام کے خانے میں منتقل ہو جاتی ‘ مگر اب کی بار ایسا کچھ نہیں ہوا اور حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے دوران لاہور کے حلقے والٹن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے بکسے سے صرف ایک ہی پرچی برآمد کیا ہوئی کہ سوشل میڈیا پر جیسے ایک”طوفان” برپا ہو گیا ہے ‘ طنز و مزاح سے مزین پوسٹیں سامنے آکر لوگوں کے لئے تفنن طبع کا باعث بن رہی ہیں ‘ ان میں سے ایک بہت ہی دلچسپ ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ”جن لوگوں کووالٹن کے حلقے میں پیپلز پارٹی کو ایک ووٹ ملنے کی جلن ہے ‘ وہ چاہتے کیا ہیں آخر؟ یعنی امیدوار اپنا ووٹ بھی مخالف کو ڈال آئے؟” وہ جو خاطر غزنوی نے کہا تھا کہ
خاطر اب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
تو بات اتنی سادہ بھی نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے حال ہی میں پنجاب کا دورہ کرکے اپنی پارٹی کے جیالوں کو جگانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر اس کے باوجود والٹن کے حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کوصرف ایک ووٹ (وہ بھی ان کا اپنا) ہی ملا ‘ اگرچہ اس پر بھی انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کے ساتھ ایوبی دور کے پہلے بنیادی جمہوریت کے انتخابات کے دوران کریم پورہ وارڈ کے ایک امدیوار مرزا چغتائی جیسا برتائو تو کم از کم نہیں ہوا ‘ بس ذرا سا مختلف ضرور ہوا ‘ وہ یوں کہ (تب تین روز تک پولنگ کے دوران) پہلے ہی روز ان کے اہل خانہ یعنی ان کی اہلیہ ‘ دو بیٹیوں ‘ بہوئوں اور تین بیٹوں نے بھی ان کے حق میں ووٹ پول کئے جبکہ علاقے کے لوگ سارا دن ان کے کیمپ میں آکر ان سے ووٹ نمبر کی پرچیاں بنواتے رہے مگر پولنگ کا وقت ختم ہونے پر جب بکسے کھولے گئے تو ان کو ایک بھی ووٹ نہیں پڑا تھا تھا ‘ انہوں نے طوفان کھڑا کر دیا کہ دوسرے لوگوں نے اگر انہیں دھوکہ دیا اور ان کے حق میں ووٹ پول نہیں کیا تو ان کے اپنے گھر کے نو ووٹ کہاں گئے؟ بہرحال ان کی جانب سے اس صورتحال پر مرزا چغتائی کی طرح احتجاج کیا گیا یا نہیں کیونکہ اس حوالے سے راوی”چین” تو نہیں لکھتا ‘ البتہ خاموش ضرور ہے ‘ اور خموشی گفتگو ہے ‘ بے زبانی ہے زباں میری کی تفسیر بنا ہوا ہے وہ جوشاعر نے کہا ہے کہ
کن نصیبوں پر کیا اختر شناس
آدمی بھی ہے ستم ایجاد کیا؟
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف نے کیا سوچ کر انتخابی عمل میں چھلانگ ماری تھی ؟ اور ان کی پارٹی کے جیالوں نے بھی ان کی مدد نہیں کی؟ اس کے باوجود انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کو پشاور ہی کے مرحوم میجر(ر) طلا محمد خان ٹائیگر جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا’ میجر صاحب نے بھی ایوبی دور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا ‘ انہوں نے بڑی محنت سے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی ‘ چونکہ اس دور میں صدارتی کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے صرف 80 ہزار بی ڈی ممبران ہی الیکٹورل کالج کی حیثیت سے ووٹ پول کرنے کے حقدار تھے اس لئے وہ پشاور کے حلقے کے لئے متعلقہ بی ڈی ممبران کے پاس جا جا کر انہیں اس بات پر آمادہ کرتے رہے کہ وہ انہیں ووٹ ضرور دیں ‘ سب لوگ میجر صاحب کی
شخصیت سے واقف تھے ۔ بڑے دبنگ آدمی تھے ‘ انہوں نے برصغیر خصوصاً صوبہ سرحد(کے پی) کے ان غدار خاندانوں کے بارے میں دستاویزی ثبوتوں اور تصویروں سے مزین تاریخ مرتب کی تھی اس وجہ سے بھی ان کی بڑی قدرو منزلت تھی ‘ اور جہاں جاتے لوگ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ‘ مگر سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ان دنوں ایک ووٹ کی قیمت پانچ ہزار روپے”مقرر”ہوتی تھی ‘ یعنی ماسوائے سیاسی جماعتوں کے دیرینہ وابستگان ( نہ بکنے نہ جھکنے والے) باقی کے عام لوگ پھسل کر بقول محترمہ بے نظیر بھٹو”چمک” سے آنکھیں خیرہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ‘ بہرحال کچھ لوگوں نے اس کے باوجود میجر صاحب کے ساتھ پکا پکا وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ انہیں ووٹ ضرور دیں گے اور کسی لالچ ‘ طمع یا حرص کا شکار نہیں ہوں گے ‘ لیکن پولنگ کے روزنتیجہ آنے پر پتہ چلا کہ انہیں صرف دو ووٹ ملے ہیں ‘ میجر صاحب کو اس بات پر بہت غصہ آیا’ دھاندلی پر اظہار خیال کرتے کرتے جب ان کا پارہ بلند پروازی پر مائل ہوا تو اچانک انہوں نے اپنے بیلٹ بکس میں سے دو ووٹوں کی برآمدگی پر انہوں نے کہا کہ ایک ووٹ تو میرا اپنا تھا مگرمیں حیران ہوں کہ یہ دوسرا ووٹ کس ” حرامزادے” نے ڈالا(انہوں نے اس موقع پر جوگالی دی وہ بہت ہی اونچے درجے کی تھی مگر ہم نے اسے خوف فساد خلق کی وجہ سے قابل قبول بنا دیا ہے) ان کی اس گل ا فشانی گفتار پر جلسے کے حاضرین کے پیٹ میں بل پڑ گئے ‘ تاہم انہیں اس وقت یہ مشورہ دینے کوئی آگے نہیں آیا کہ
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
یہی وجہ ہے کہ ہم نے والٹن کے حلقے کے جیالے امیدوار سے گزارش کی ہے کہ وہ شکر کریں ان کے ساتھ مرزا چغتائی اور میجر طلا ٹائیگر والی صورتحال پیش نہیں آئی وگر نہ اہل پنجاب کی جگت بازیاں تو کمال اور بے مثال ہیں۔بقول میر تقی میر
پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر
اور بستی نہیں یہ دلی ہے

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت