مکالمہ اور دلیل کی ضرورت

مکالمہ کسی بھی سماج کے تہذیبی بقاء اور ارتقاء میں آکسیجن کا کام دیتا ہے ۔یہی وہ سماجی ٹول ہے کہ جس کی بدولت سماجی رویوں ، نئے رجحانات، تبدیلیوں،مسائل اور سماج کو درپیش چیلنجز پر بات کرکے ان کی ماہیئت سمجھا جاسکتاہے اور سمجھ لینے کے بعد تعین کیا جاتا ہے کہ اس نئی چیز کو جاری رکھا جائے تو کس سمت اوراگر روکنامقصود ہو تو اسے کیونکر روکا جائے۔ یہی مکالمہ دانشورانہ سطح پر بھی ہوتا ہے ، عوامی سطح پر بھی اورایوانِ اقتدارکی سطح پر بھی ہوتا ہے ۔مکالمہ بنیادی طور پر دلیل کی بنیاد پرکیا جاتا ہے ۔دلیل ہی بحث کے ضابطے متعین کرتی ہے ۔ کسی بھی سماج میں دلیل کا مرجانا یا مستعمل نہ ہونا کسی شدید بحران سے کم نہیں ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم بحث نہیں کرتے یا مکالمہ کی قوت ہم میں نہیں رہی ۔ اجتماعی طور پر ہم شایدسب سے زیادہ بحث کرنے والوں میں سے ہیں ۔ آپ کسی دفتر ، کسی دکان یا کسی ہوٹل میں چلے جائیں تو آپ کو لوگ بحث کرتے ہی نظر آئیں گے ۔ ہمارا ٹی وی بحث و مباحث کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ سوشل میڈیا بحث کی سب سے بڑی فیکٹری ہے ۔ لیکن ہمارے بحث کے تما م مراکزمیں کج بحثی مکالمے کی حد تک نہیں پہنچ پاتی اور ذاتی پسند نا پسنداورعصبیت کے آئینے میں ہی چیزوں کو دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے میں اگر دلیل سے بات کی بھی جائے تودوسری جانب سے Ad-Hominem انداز کا جواب آجائے گا ۔Ad-Hominem بحث کا وہ انداز ہے جس میں دلیل کی بجائے ذاتی احساس کی بنیاد پر کسی کو جواب دیا جائے۔ مثلاً،جیسے بیوی شوہر سے کہے کہ بیٹی کے جہیزمیں سپلٹ اے سی دیناہے تو شوہر جواب میںکوئی دلیل دینے کی بجائے کہے کہ تمہارے باپ نے تمہیں جہیز میں کتنے سپلٹ اے سی دیے تھے ؟۔عوامی سطح کو تو چھوڑیئے یہ انداز آپ کو ہرحکومتی ترجمان کے یہاں بھی دکھائی دے گا ۔ جب ان کی کسی پالیسی پر تنقید کی جائے تو وہ پلٹ کر پچھلی حکومتوں کاذکر کردیں گے کہ فلاں کی حکومت نے اس ضمن میں کیا کیا تھا ۔ آپ کو ہمارا سارا معاشرہ اسی ایڈہامنم طرز کے مکالمے میں گرفتار نظر آئے گا ۔ جس کی وجہ سے ہمارے فکری مباحثے اپنی ابتداء سے آگے بڑھتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ایک حقیقی یا ریشنل فکری رجحان ،جسے آپ عالمی فکری رجحان بھی کہہ سکتے ہیںاور دوسراہماراروائتی ‘ثقافتی فکری رجحان ہوتا ہے ۔ ہم عام طور پر اسی روائتی’ ثقافتی فکری رجحان کے تحت ہی زندگی گزارتے ہیں جبکہ بہت کم ہم ریشنل یا حقیقی رجحان کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب بحث میں ہمیں روائتی ‘ثقافتی فکری رجحان سے حقیقی فکری رجحان کی جانب سوئچ اوور ہونا ہوتا ہے تو یہاں دقت پیش آتی ہے اور ہم فیصلہ نہیں کرپاتے کیونکہ ہر فکری رجحان کی اپنی دلیل ہوتی ہے سو ایک عجیب سی کنفیوژن میں بحث ایک بے نتیجہ انجام تک پہنچ جاتی ہے ۔ جس طرح آج کل تھری ڈی ٹیکنالوجی آئی ہے۔ آپ خاص چشمے لگا کر ہی تھری ڈی ویژن دیکھ پاتے ہیں ۔ بغیر مخصوص چشموں کے تھری ڈی ویژن دیکھا نہیں جاسکتا ۔ دراصل تھری ڈی چشمے آپ کی ویژن کی پرسیپشن یا مدرکات کو تبدیل کردیتے ہیں ۔ہمارے سماجی سسٹم میں فکری مدرکات کو تبدیل کرنے کا کوئی تھری ڈی چشمہ میسرنہیں ہے اسی لیے ہم محض اپنی معروضی پرسیپشن سے ہی چیزوں کو دیکھ پاتے ہیں،جس کا ظاہری اور فطری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم اس بحث کا غلط نتیجہ ہی نکالنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ پرسیپشن یا مدرکات میںوسعت لانے سے ہی ہم کسی وژن کی تھری ڈی تفہیم کرسکتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام رٹا لگانے پر اتنا فوکس کرچکا ہے کہ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت کے پیدا ہونے کے امکانات محدود ہوکر رہ چکے ہیں ۔ اب تخلیقی صلاحیت ہی نہ ہوگی تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ نئی بات سوچے سو ہمارا نظام تعلیم لکیر کے فقیر پیدا کرنے میں مشغول ہے ۔ نہ ہی ہمارے تعلیمی نظام میں کسی نے منطق اور جمالیات پڑھانے کوشش کی ۔ جب قوم لاجک اور استھیٹک کو ہی نہیں سمجھے گی وہ بھلا دلیل کو کیسے سمجھے گی اور مادیت سے ماوراء احساس کو کیسے جان پائے گی ۔آپ پڑتال کرلیں اور اپنے تعلیمی نظام کے ٹاپ تھری طبقے الگ کرلیں اور ان کی اخلاقیات کو پرکھ لیںجواب سامنے آجائے گا ۔ہمارے یہاں تعلیم نظام میں ڈاکٹر ، انجینئر اور سی ایس ایس وغیرہ ہماری اولین ترجیحات ہیں اور ہمارے سماج کے اعلیٰ اذہان ہی ان شعبوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ کسی دن صرف جائزے کے لیے ڈبگری گارڈن جیسی جگہ چلے جائیں وہ جگہ آپ کو انتہائی کوالیفائیڈ ڈاکٹروںکی لگائی ہوئی ایک منڈی دکھے گی جہاں دکھی انسانیت کو موت تک دکھی کیا جارہا ہوتا ہے ۔ پیسہ پیسہ اور بس پیسہ کمانا مطمع نظر ہے اور اخلاقیات کی گنجائش معدوم،وہاں جیب میں پیسے نہ ہوں تو کوئی سردرد کا علاج بھی نہیں کرواسکتا ۔ دوسرے دو طبقوں کے لوگوں کوآپ نیب کی کرپٹ لوگوں کی فہرست میںباآسانی تلاش کرسکتے ہیں۔یہ ثابت کرتا ہے گویا ہمارا نظام تعلیم اخلاقی قدروں کو سکھلانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔ہمارا تعلیمی نظام ہمارے اعلیٰ اذہان کی اخلاقی سطح بلند نہیں کرسکتا تو دوسرے اور تیسرے درجے کے اذہان کو کیامتاثرکرے گا۔ اپنی پرسیپشن کو امپروو کرنے کے تین بہت اہم حوالے ہیں ۔اچھی کتاب کا مطالعہ اور صاحب علم لوگوں کی صحبت اور ان کے کلام سے استفادہ کرنا۔اور تیسرا حجرہ ،بیٹھک وغیرہ جیسے سماجی ادارے ۔مسلہ یہ بھی ہم نہ ہی اچھے کتب بین اور قاری ہیں اور نہ ہی اچھے سامع ۔کتاب تو چھوڑیئے کوئی دو چار صفحوں کی تحریر پڑھنے کاتکلف نہیں کرتا ۔جبکہ ہمارے حجرے ، ہماری چوپالیں اوربیٹھکیں ماضی جیسی آباد نہیں کہ جہاں سنجیدہ اور صاحب علم لوگوں کو اچھے سامع مل سکیں ۔رہا سوشل میڈیا وہ وہاں اتنا شور کہ اچھی بری ساری آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہوچکی ہیں ۔ایسے میں ایک ہی بات بچتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ذوق سلیم کی آبیاری کے لیے اور دلیل کو سمجھنے کے لیے ان کی ریشنل اپروچ کو بڑھانے کے لیے اپنے تعلیمی سسٹم میں لاجک اور استھیٹک کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائیں ۔
٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''