ترقی کیلئے جمود کا خاتمہ کرنا ہو گا

ترقی یافتہ دنیا کی پوری عمارت ”جدت” پر کھڑی ہے،اس کی زندہ مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے نئے خیالات پر عمل کر کے ایسی ترقی کی کہ جس سے دنیا حیران رہ گئی، اہل دانش کا ماننا ہے کہ جن ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ نئے آئیڈیاز کی ترویج کا ماحول پیدا کیا وہ اس صلاحیت سے اپنے مسائل کو حل کر رہے ہیں۔ چین کی ہر چیز میں جدت دکھائی دیتی ہے اس لئے اس کی ترقی کو مثالی قرار دیا جا رہا ہے، اس کے برعکس جب ہم پاکستان کے حالات کاجائزہ لیتے ہیں تو یہاں جدت کی بجائے جمود دکھائی دیتا ہے، گزشتہ دنوں عالمی بینک نے تحریک انصاف کی حکومت کو مشورہ دیا کہ پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری سے بہتر ہے کہ پہلے لوگوں کے اندر وہ انتظامی صلاحیتیں پیدا کی جائیں جو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے عمل کی نگرانی کے لیے ضروری ہیں، یعنی پہلے لوگوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ عالمی بینک نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں جدید ہونے کا مطلب صرف نئی ٹیکنالوجی لانا، نئی مشینیں درآمد کرنا، اور نیا پلانٹ لگانا ہے، جبکہ دنیا بھر میں جدید ہونے کا مطلب نئے خیالات، نئے آ ئیڈیاز اور نئے تجربات کو سامنے لانا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مندرجات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ہر طرف جمود کا عالم ہے، یعنی نئے خیالات کو اپنانے اور نئے تجربات کرنے کا کوئی چلن ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب فکر جامد ہو جاتی ہے تو انسان وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے کسی کونے کھدرے میں جا بستا ہے، جہاں اس کی اپنی ایک الگ دنیا قائم ہوتی ہے، جس میں بعض اوقات وہ کسی قسم کی ترمیم برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔انسان کا یہ غیر فطرتی اور خود ساختہ رویہ معاشرے میں علمی و اخلاقی اضمحلال کا باعث بن جاتا ہے۔ انسان کے اس رویہ سے مطلق خود غرضی اور عدم برداشت کی ایک ایسی فضا قائم ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ پھر زبردست اخلاقی پسماندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ فکر کے جمود سے نہ صرف انسان علمی و اخلاقی طور پر پسماندہ ہو جاتا ہے، بلکہ معاشرہ مجموعی طور پر معاشی و سیاسی زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ فکری جمود کے سبب انسان جدید تعلیم و فنون کے حصول سے یکسر عاری ہو جاتا ہے، کیونکہ فکری تحریک کے بغیر تعلیم و تعلم کا سلسلہ نہیں جاری رکھا جا سکتا۔انسان ایک مخصوص دائرے سے باہر نکلے بغیر تعلیم کی افادیت سے بہرہ مند ہو سکتا ہے نہ فنون سے آراستہ ، چنانچہ وسائل کی موجودگی میں بھی انسان دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی روش میں مبتلا ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں سوچ آزاد نہیں وہ معاشی طور پر پسماندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سطح پر جمود دکھائی دیتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جمود نے پورے سماج کو اپنے حصار میں لے لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، ادب، معیشت میں ہم دنیا سے پیچھے ہیں، قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ ہم ایک عرصہ تک نئی فملیں بنانے کی بجائے بھارتی فلموں کی کاپی کرتے رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل ایک کارٹون نظر سے گزرا تھا جس میں تین منزلہ عمارت تھی سب سے نیچے والی عمارت میں ہالی ووڈ کا لکھاری فلم کی کہانی لکھ رہا تھا، اس کے اوپر بھارتی لکھاری اس کی نقل کر رہا ہے اور سب سے اوپر پاکستانی لکھاری بیٹھا ان دونوں کی کہانی چرا رہا ہے، یہ محض کارٹون نہیں بلکہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے ۔ جدت اختیار کرنے کے حوالے سے بعض ممالک یورپ کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں، یہ درست ہے کہ کام کی بات جہاں سے ملے حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے تاہم یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے عروج کے دور میں کس شعبے اور طبقے کے افراد نے ریاستی اداروں کو منظم کیا اور ترقی کو یقینی بنایا۔ کون سے طبقے کے لوگ تھے جو بعد میں زوال کا سبب بنے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا عروج ممتاز دانشوروں اور تجارت پیشہ افراد کی وجہ سے ہوا، اس وقت مسلمان تاجر حکمت و بصیرت کے ساتھ ساتھ حق گو اور امین تھا، اس وقت کے مسلمان تاجروں نے جو آپ بیتیاں یا سفر نامے لکھے وہ اپنے اندر بے بہا علم و دانش سموئے ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک کو ایک بار پھر زوال سے نکالنے کا آپشن یہ ہے کہ مفکرین اور تاجر طبقے کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کی بنیاد پر مسلمان ریاستیں پسماندگی اور جمود سے باہر نکل سکیں۔ سماج سے جمود کو ختم کرنے کیلئے ریاست کو عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، ان اقدامات کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہونا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسل جمود کا شکار نہ ہو۔