ایک اور ناکام تجربہ

محکمہ ابتدائی تعلیم کی جانب سے مختلف اضلاع میں ایک ہزارسے زائد سرکاری سکولزمیں ڈبل شفٹ شروع کرنے کی منصوبہ بندی تھی اس حوالے سے محکمہ تعلیم نے مختلف اوقات میں نوٹیفکیشن بھی جاری کئے تھے تاہم نامعلوم وجوہات کی وجہ سے 167سکولز کو ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے صرف صبح کی شفٹ تک محدود کردیا گیا ہے اعلامیہ کے مطابق ایجوکیشن افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ مذکورہ اضلاع کے ڈبل شفٹ سکولز کے لئے بھرتی عملے کی تنخواہیں مزید ادانہیں کی جائیں گے یعنی ان تمام ملازمین کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔بنا سوچے سمجھے منصوبہ شروع کرنے اور اس کی افادیت کامیابی وناکامی کا پوری طرح جائزہ لئے بغیر شروع کرنے کے بعد بیک جنبش قلم اسے ختم کرکے لوگوں کا روزگار ختم کرنے کا عمل صوبائی حکومت کا وتیرہ بن گیا ہے اس سے نہ صرف سرکاری وسائل کا ضیاع ہوتا رہا بلکہ منصوبے کی ناکامی اور لاحاصل ہونے کے باعث یہ صوبائی حکومت اور خاص طور پر محکمہ تعلیم کے لئے بھی کسی فخر کی بات نہیں بلکہ باعث شرمندگی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ منصوبہ شروع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب صبح کے اوقات میں سرکاری سکولوں میں اور دیگر تعلیمی اداروں میںطلبہ کی تعلیم پرتوجہ اور معیار ناقابل بیاں ہے تو پھر دوسری شفٹ شروع کرنے سے کیا مقاصدحاصل ہوتے اس کا اندازہ لگائے بغیر بدقسمتی سے اسے ایک انقلابی قدم کے طور پر متعارف کرایا گیا اور ناکامی کی صورت میں اسے لپیٹ دیا گیا یاپھر حکومت کے پاس ان چند کنٹریکٹ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے رقم ہی دستیاب نہیں اس تجربے کا آخرحاصل کیا ہوا۔سوائے اس کے کہ یہ صوبائی حکومت اور خاص طور پر محکمہ تعلیم کے لئے گلے کا طوق ثابت ہوا طلبہ کوکوئی فائدہ نہ ہوا پڑھائی ادھوری رہ گئی روز پڑھانے والے اچانک بیروزگار ہوگئے ۔ اس منصوبے کو پیش کرنے اور اس کی منظوری دے کر حکومت کی بدنامی کا باعث بننے والے عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اور آئندہ سوچ سمجھ کر کام شروع کرنے اور اسے جاری رکھ کر کامیاب بنانے کی حکمت عملی طے ہونی چاہئے تاکہ اس طرح کے شرمناک تجربے سے بچا جا سکے۔
نیمے دروں نیمے بیروں
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کو ٹیبل پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے وہ ہتھیار ڈال کر خود کو آئین اور قانون کے تابع کریں۔دریںاثناء سکیورٹی فورسز پر حملوں کے حوالے سے مبینہ خطوط کے بعد تحریک طالبان نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے رخ موڑتے ہوئے پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کے رہنمائوں کو خبردار اور لوگوں کو ان پارٹیوں کی قیادت سے دور رہنے کی دھمکی دیدی ہے واضح رہے کہ تحریک طالبان کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی فورسزپر حملوں کے بعدوزیرخارجہ بلاول زرداری نے امریکہ میں میڈیا سے گفتگو میں آپریشن کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے خطابات اور بیانات میں سخت کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔مشکل امر یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے حکومتی عمائدین دو قسم کی آراء کا اظہار کرنے لگتے ہیں ان کے بیانات میں یکسانیت نہ ہوناحکومت کے کسی ٹھوس فیصلہ کرنے اور عزم صمیم کے اظہار کی نفی ہوتی ہے یکے بعد دیگرے وزیر اعظم اوروزیر خارجہ سخت اقدام کی بات کر رہے ہیں وزیر داخلہ نے بھی ایک روز قبل ہی گرم تعاقب کا عندیہ دیا تھا اب اچانک خود ہی بات چیت کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی مسلسل دہشت گردی اور مزید افراد کو نشانہ بنانے کے عمل میں یکسو ہے اگر حکومت بھی یکسوئی کے ساتھ کوئی فیصلہ کرکے اس پر ہر قیمت پر عملدآرمد کا اعلان کرنے خواہ وہ مذاکرات ہوں یا ردالفساد آپریشن جوبھی فیصلہ کیا جائے سوچ سمجھ کر کیا جائے اور پھر اس پرعمل درآمد ہوجائے تبھی فیصلہ کن اور موثر ہونے کی توقع ہے جس طرح نیمے دروں نیمے بیروں کی پالیسی اپنائی جارہی ہے اس پر نظرثانی ہونی چاہئے۔
نگرانی کی جانی چاہئے
نشے سے پاک پشاور مہم کے دوسرے مرحلے پر نشے سے صحت یاب مزید 42افراد کوخاندان کے حوالے کرنے کاعمل نہایت خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے حکومتی احسن اقدام کی کامیابی اور محنت کے ضیاع سے بچانے کے لئے ان افراد کے اہل خاندان کوبھی تعاون کرنے اور ایک مرتبہ پھر نشے کی لت میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ذمہ دارانہ کردار کی ضرورت ہوگی ایسا نہ ہونے کی صورت میں سارے کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے ان افراد کی کچھ عرصے تک باقاعدہ مانیٹرنگ کی جانی چاہئے اور اطمینان کرلینا چاہئے کہ وہ مستقل طور پر اس لعنت سے چھٹکارا پا کر عام شہری کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہو چکے ہیں۔