اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا

امریکی ویسے تو بہت کائیاں ہیں ، افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کے دوران بعض اطلاعات کے مطابق اگرچہ امریکی افواج کے کئی کمانڈراور اہم عہدیدارمبینہ طور پر ہیروئن کی سمگلنگ میںملوث رہے اور لاکھوں کروڑوں ڈالر کماتے رہے اگرچہ خود ہیروئن پینے سے احتراز کرتے رہے ‘ ایسا نہ کرتے تو پھر وہاں لڑنے اور جہاز و ہیلی کاپٹر اڑانے کی بجائے خود”جہاز” بنے ہوتے ‘ تاہم اب جبکہ وہ افغان سرزمین خالی کرکے بے نیل و مرام واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں تو امریکہ سے ملنے والی خبروں کے مطابق وہاں ان میں سے لاتعداد امریکی فوجی نسوار کی طلب میں بے چین ہو رہے ہیں، کیونکہ افغان فوجیوں کی معیت میں اتنی مدت گزارنے کے دوران وہ نسوار کے عادی ہو گئے ہیں اور نسوار کا نشہ بھی سر چڑھ کر بولتا ہے ، بات کو تھوڑی دیرکے لئے یہیں روکتے ہوئے ایک اور خبر کاتذکرہ کرتے ہیں ‘ اور وہ یہ کہ ملک میں مہنگائی کی مسلسل لہروں اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کچھ علاقوں میں نسوار فروشوں نے بھی نسوار کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے ایک پڑیا کی قیمت کم از کم بیس روپے کر دی ہے اور اس حوالے سے تمام دکانداروں نے باقاعدہ سٹامپ پیپر پر معاہدہ لکھ کر دستخط بھی کر دیئے ہیں کہ بیس روپے سے کم پر کوئی بھی دکاندار نسوار کی پڑیا(پلاسٹک کا چھوٹا سا لفافہ) فروخت نہیں کرے گا۔ مگر اس مہنگائی نے نسوار فروشوں کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی ”پراڈکٹ” کی قیمت میں اضافہ کریں ‘ نسوار کے اس پیکٹ کا استعمال کب سے شروع ہوا یہ تو نہیں معلوم کیونکہ مجھے تو وہ دن یاد آرہے ہیں جب لوگ نسوار کو چھوٹے چھوٹے گول ڈبیوں میں بڑے سلیقے سے واسٹک یاکوٹ کی جیبوں میں رکھتے تھے ‘ ان ڈبیوں کی دو اقسام ہوتی تھیں ‘ ایک تو کارتوس نما کیپسول کی طرح جو سادہ اور کم قیمت ڈبیہ ‘ جبکہ دوسرا چپٹا گول ‘ اس میں بھی سادہ اور سستے داموں والی ڈبیہ کے ساتھ ساتھ ایسی فیشن ایبل ڈبیہ بھی ہوتی تھی جو قیمتی ہوتی کہ اس ڈبیہ کے ڈھکن کے اوپر چھوٹا سا آئینہ اور گرداگرد فیروزہ اور یاقتون کی رنگت کے مصنوعی نگینے جڑے ہوتے’ آئینہ اس لئے ہوتا کہ نسوار کھانے (استعمال کرنے) والے اس میں کبھی کبھار اپنے دانتوں کا معائنہ بھی کر لیا کریں اور اگردانتوں کی رنگت پرنسوار کے اثرات پڑ گئے ہوں تو پھر دنداسہ مل کر ان دانتوں کو چمکا دیا جائے،مگر نسوار سے خراب ہوئے دانتوں کا بھی شافی علاج ہے ‘ بہرحال اب جبکہ خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں نسوار کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے مگر اب بھی اتنی نہیں بڑھی کہ امریکی یا ان کے دیگر ساتھی یعنی نیٹو ممالک کے فوجی بھی ممکن ہے افغانستان میں برسرپیکار رہ کر نسوار کے عادی ہو چکے ہوں ‘ یہاں مجھے ایک دو واقعات یاد آگئے ‘ ایک تو چند برس پہلے میں اپنے ادیب ‘ شاعر دوست فیروز آفریدی کے طفیل جب وہ قطر میں مقیم تھے اور پشتو ادبی سوسائٹی کے روح رواں تھے ‘ ایک اردو مشاعرے میں شرکت کے لئے گیا تو وہاں ایک دعوت میں شرکت کے لئے فیروز خان کی گاڑی میں جارہے تھے کہ انہیں نسوار کی حاجت محسوس ہوئی ‘ وہ اپنی نسوار گھرپر ہی بھول آئے تھے ‘انہوں نے گاڑی کی رفتار کم کرکے دور سے آنے والے ایک بزرگ پختون کو دیکھا تو اس کے قریب گاڑی روکتے ہوئے ان سے نسوار کی ایک چٹکی طلب کی ‘ بزرگ نے ادھر ادھر دیکھا اورنہایت راز داری کے ساتھ چھپا کر جیب سے نسوار کی پڑیا نکالی اور فیروز خان کو دی ‘ گاڑی آگے چلی تو میں نے پوچھا ‘ خیریت؟ یہ اتنی رازداری کیوں؟ فیروز خان نے جواب دیا ‘ کھلے عام یوں نسوار استعمال پر سخت پابندی ہے، ‘ گویا ایک چٹکی نسوار اس بھارتی فلم کے ڈائیلاگ کی مانند تھی جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ایک چٹکی سیندور کی حقیقت تم کیا جانو بابو۔۔۔۔ اس پر مجھے اپنا ایک شعر بھی یاد آرہا ہے ‘ ممکن ہے موقع کی مناسبت سے تعلق نہ رکھتا ہو مگر بات نسوار کی چلی ہے تو عرض کئے دیتا ہوں کہ
کیا زمانہ تھا کہ ہر کوئی تھا رسیا پان کا
دل یہ مانگے مور ‘ اب نسوار ہونی چاہئے
بات ایک چٹکی نسوار سے چلی اور وہ لوگ جو بہ خوشی ورغبت ایک دوسرے کو نسوار کی چٹکی دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے تھے ‘ ممکن اب اس مہنگائی کی وجہ سے چونڈی(چٹکی نسوار) دینے کا یہ سلسلہ موقوف کر دیں ‘ اس حوالے سے پشاور سے (غالباً) کراچی کے سفر کے دوران دو اجنبی اکٹھے سفر کر رہے تھے جبکہ دونوں نسوار خور تھے ‘ مگرایک بہت کنجوس تھا اور دوسرے سے بار بار نسوار کی چٹکی (چونڈی) مانگ کر گزارہ کر رہا تھا ‘ تو اس واقعے پر مبنی ایک مزاحیہ فنکار نے فکاہیہ شاعری کرکے لوگوں کے تفنن طبع کا اہتمام ان دونوں کے درمیان مکالمے کی صورت یوں کیا ہے (نظم طویل ہے مگر میں اسے ضرورت کے مطابق مختصر کر رہا ہوں ‘تو ہوتا یوں ہے کہ شہر سے روانگی کے وقت مفت خورہ نسواری اپنے ساتھ کونسوار نکالتے دیکھ کر ایک چٹکی مانگ لیتا ہے جسے وہ فراخدلی سے پیش کر دیتا ہے ‘ جب گاڑی نوشہرہ(پشتو میں نوخار) پہنچتی ہے تو مفت خورہ پوچھتا ہے یہ کونسی جگہ ہے ‘ وہ کہتا ہے نوخار(نوشہرہ) تو وہ دست سوال دراز کرتے ہوئے کہتا ہے ‘ اچھا نوخار ”تہ راکہ لگ نسوار” یعنی ذرا نسوار دینا ‘ سفر جاری رہتا ہے ‘ راولپنڈی پہنچتے ہی وہ پھر پوچھتا ہے یہ کونسی جگہ ہے ‘ وہ شخص اپنی جیب سے نسوار کی پڑیا نکال کر تھوڑی سی منہ میں ڈالتا ے تو یہ پھر قافیہ بندی پر اتر آتا ہے اور پشتو لہجے میں رائولپنڈی کا نام پنڈے سن کر کہتا ہے ”تہ راکہ یو چونڈے” یعنی ایک چٹکی تو دیدو ‘ اسی طرح سفر جاری رہتا ہے اور یہ قافیہ بندی بھی جاری رکھتے ہوئے، اس دوران گوجرانوالہ گاڑی پہنچتی ہے تو یہ شخص پھر پوچھتا ہے کہ یہ کونسی جگہ ہے وہ بندہ اپنی جیب سے نسوار کی پڑیا نکال کر ایک چٹکی منہ میں ڈالتا ہے اور اس سے پہلے کہ مزید ایک چٹکی نسوار کی فرمائش سننی پڑے ‘ طنزیہ لہجے میں خود ہی بات پوری کرتا کہ ”اوس خو زان واخلہ(گوجرانوالہ کے ہم قافیہ واخلہ) اور مفت خورہ اس کی شکل دیکھتا رہ جاتا ہے ‘ سو اب دیکھتے ہیں کہ امریکی نسوار خور اپنے لئے نسوار کا بندوبست کیسے کرتے ہیں؟ کیونکہ نسوار کا”ڈسا ہوا” بغیر نسوار کے زندہ نہیں رہ سکتا اور بے چینی اسے مشکل میں ڈال سکتی ہے ‘ کہ بقول مولانا حالی
اک دسترس سے تری حالی بچا ہوا تھا
اس کو بھی تو نے ظالم چرکا لگا کے چھوڑا

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار